طالبان سے بات چیت میں پاکستانی معاونت کا اعتراف ہے : امریکی نمائندہ

Jun 26, 2013

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیراعظم محمد نوازشریف نے امریکہ کے افغانستان اور پاکستان کےلئے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز سے کہا ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام کی بحالی کے ساتھ پاکستان کے گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ انہوں نے امریکی نمائندے کو یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ پاکستان افغان قیادت میں امن کے عمل کے بارے میں مکمل طور پر پرخلوص ہے۔ انہوں نے ان اقدامات کا حوالہ دیا جو پاکستان نے اس سلسلہ میں اٹھائے۔ وزیراعظم نے نوٹ کیا کہ افغانستان کی صورتحال نازک مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے کیونکہ امریکہ انخلا کی جانب بڑھ رہا ہے۔ وزیراعظم نے زور دیا کہ اس مرحلہ میں پاکستان اور امریکہ کو ایک دوسرے کے ساتھ قریبی طور پر انگیج رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکی خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز نے وزیراعظم کو پاکستان امریکہ تعلقات کے متعلق مختلف امور کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے افغانستان میں امن و مفاہمت کے لئے کی جانے والی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ امریکی نمائندے نے اس سلسلہ میں بعض حالیہ واقعات کا بھی حوالہ دیا جن میں دوحہ میں طالبان کے دفتر کا کھولا جانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے افغانستان کے اندر بعض واقعات اور خطے کی مجموعی صورتحال پر روشنی ڈالی۔ ملاقات میں وزیراعظم کے قومی سلامتی کے بارے میں مشیر سرتاج عزیز اور بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی موجود تھے۔ ملاقات کے بارے میں امریکی سفارت خانہ کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ملاقات میں دوطرفہ اور علاقائی امور کے بارے میں گفتگو کی گئی۔ جیمز ڈوبنز نے افغان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے اور اس میں مدد دینے کے سلسلہ میں پاکستان کے تعاون کو سراہا۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کے لئے نومنتخب حکومت کے ساتھ مل کر کام جاری ر کھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کی امریکی نمائندے سے ملاقات کے بارے میں سرکاری ذرائع ابلاغ پر کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم نے امریکی ڈرونز حملوں کے خلاف احتجاج کیا اور انہیں روکنے کا مطالبہ کیا تاہم وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں ڈرونز حملوں کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی امریکی سفارت خانہ کے بیان میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہے۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں مصدقہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں امریکہ کے پاکستان پر ڈرونز حملوں کے بارے میں ملک میں احتجاج کا کوئی حوالہ موجود نہیں تھا۔ واضح رہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی کسی اعلیٰ امریکی عہدےدار کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق وزیراعظم نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام امریکی فوج کا سب سے زیادہ خواہاں ہے۔ انخلا سے متعلق افغانستان میں صورتحال اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان، افغانستان قیادت امن عمل کے لئے پرعزم ہے۔ خطے میں امن کے لئے پاکستان، امریکہ قریبی تعلقات ضروری ہیں۔ پرامن افغانستان کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ وزیراعظم نے امن عمل سے متعلق کئے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔ خبر ایجنسیوں این این آئی، ثناءنیوز اور آئی این پی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملاقات میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا اور نوازشریف نے یہ بھی کہا کہ امریکہ سرحد پار سے دہشت گردی روکنے کے لئے اقدامات کرے۔ ڈومور کے مطالبات پر نظرثانی کی جائے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں۔ پاکستان کو نظرانداز کر کے خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے افغان امن کے لئے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندہ جیمز ڈوبینز نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ابھی تک براہ راست مذاکرات نہیں ہوئے۔ ہمارے مذاکرات بالواسطہ قطر کی حکومت کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ شام وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی سے ملاقات کے بعد امریکی سفیر کی اقامت گاہ پر اخبار نویسوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے جیمز ڈوبینز نے کہا کہ طالبا ن کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کا عمل 18 ماہ پرانا ہے۔ پاکستان افغانستان میں مصالحتی عمل کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکی نمائندے نے بتایا کہ انہیں وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان میں مصالحتی عمل کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ امریکہ کے خصوصی نمائندہ نے بتایا کہ طالبان کا دوحہ کا دفتر ان کا اپنا سیاسی دفتر ہے طالبان نے اسی دفتر پر اسلامی امارات افغانستان کا بینر اور جھنڈا لگایا جس پر صدر کرزئی اور افغان حکومت نے اعتراض کیا جس کے بعد مذاکراتی عمل معطل ہو گیا۔ امریکی نمائندہ سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان کا کیسا کردار چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کردار قابل تعریف ہے۔ طالبان دوحہ کے دفتر کے ذریعے ایک پراپیگنڈا کو COUP کرنا چاہتے تھے۔ امریکی نمائندہ سے استفسار کیا گیا کہ وہ افغانستان کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں جب امریکہ اور نیٹو فوجیں وہاں سے نکل جائیں گی تو کیا ہو گا تو امریکی خصوصی نمائندہ نے بتایا کہ افغانستان تبدیل ہو گیا ہے۔ افغانستان میں حالات جس حد تک خراب ہونا تھے وہ ہو چکے ہیں، اب افغانستان تبدیل ہو رہا ہے۔ امریکی نمائندہ نے بتایا کہ دس سال پہلے کے مقابلے میں افغانستان میں شرح خواندگی دگنی ہو گئی ہے، اب افغان عوام صحت کی سہولتوں اور اچھی سڑکوں، فون کی سہولتوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ وہ طالبان کو سکول بند کرنے اور عورتوں کی تعلیم پر پابندی لگانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ امریکہ کے افغانستان کے بارے میں سروے کے مطابق طالبان کو افغان عوام کی اکثریت مستقبل کے سیاسی نظام میں کردار تو دینا چاہتی ہے لیکن وہ ان کی بالادستی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گی۔ امریکی نمائندہ سے پوچھا گیا کہ ملا برادر کا مصالحتی عمل میں کردار کتنا ا ہم ہے تو جیمز ڈوبینز نے کہا کہ ملا برادر ملا عمر کا ایک معتمد ساتھی ہے، وہ اس مصالحتی عمل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکی نمائندہ سے پوچھا گیا کہ ملا برادر کہاں ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی حراست میں ہے۔ امریکی نمائندہ سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں مصالحتی عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے تو جیمز ڈوبینز نے کہا کہ سب سے بڑی رکاوٹ افغان حکومت اور اس کے اتحادیوں اور طالبان کو ایک کمرے میں بند کر کے مذاکرات کیلئے آمادہ کرنا ہے۔ اے پی پی کے مطابق امریکی نمائندے نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستانی معاونت کا اعتراف کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کرزئی سے بات چیت مثبت رہی ہے اور امید ہے آئندہ ایک دو ہفتوں میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت شروع ہوجائیگی۔کابل (اے پی پی) امریکی خصوصی نمائندہ جیمز ڈوبینز افغان صدر حامد کرزئی کو دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفترکھولنے پر اعتماد میں نہ لینے کے مسئلہ پر منانے میں ناکام ہوگئے۔ صدر حامد کرزئی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات صرف اور صرف افغان حکومت کی قیادت میں ہی ہوں گے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی خصوصی نمائندہ نے کابل میں افغان صدر کو طالبان کے ساتھ مذاکرات پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی مگر حامد کرزئی نے واضح الفاظ میں کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات صرف افغان حکومت ہی کریگی۔ اگر امریکہ نے براہ راست طالبان سے مذاکرات کئے تو ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ رپورٹس کے مطابق صدر کرزئی نے امریکی نمائندے کی موجودگی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ امریکہ افغانستان میں امن کوششوں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے گریز کرے۔ 

مزیدخبریں