پاکستان کرکٹ بورڈ کے قائم مقام چیئرمین جوکہ اپنی سکول کی پہلی جماعت کی ٹیم کے اوپننگ بلے باز ہونےکے دعویدار بھی ہیں۔ مجھے عزیزم محمد انور نے یہ مشورہ بھی سرراہ دیا ہے کہ نجم سیٹھی کے سکول کے زمانہ طالب علمی کا کرکٹ ریکارڈ ضرور نکلوایا جائے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ وہ کس ”پائے“ کے اوپنر تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بھی ویسے ہی اوپننگ بلے باز تھے جیسا ہر تیسرا پاکستانی ہے۔ پرائمری سکولوں، گلی محلوں کی ٹیموں کی پاکستان میں تعداد بھی محتاط اندازے کے مطابق دس لاکھ سے کم نہیں ہو سکتی۔ ہر ٹیم میں دو اوپنر تو ہوتے ہی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہی ہمیشہ اوپنر رہیں۔ ایک دفعہ اوپن کرنے والا ہمیشہ کے لئے اوپنر کہلا سکتا ہے۔ آج ایسے اوپنروں کی تعداد کروڑوں نہ ہی پچاس ساٹھ لاکھ تو ہو گی۔ یہ تمام کے تمام ”میرٹ“ اور اپنی ”اہلیت“ پر چیئرمین پی سی بی بن سکتے ہیں۔ میاں نوازشریف اپنی وزارت عظمٰی کے دور میں افتتاحی بلے باز کی حیثیت سے کرکٹ کھیل کر مشہور ہوئے تھے۔ اب تو نجم سیٹھی نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ نوازشریف اگر وزیراعظم نہ ہوتے تو چیئرمین پی سی بی ہوتے۔ ہمارے وقت نیوز کی ہر دلعزیز شخصیت فیصل میاں جو اپنے جملوں اور حرکتوں سے فارغ وقت میں سب کو محظوظ کرتے ہیں۔ انہوں نے نوائے وقت کی اس خبر پہ بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ پھر ہم یہ سمجھیں کہ اگر نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی نہ ہوتے تو وزیراعظم ہوتے۔
نجم سیٹھی کو قائم مقام چیئرمین بنانے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کے سابق وفاقی وزیر کھیل اعجاز جاکھرانی نے بھی احتجاج کیا ہے کہ میرٹ میرٹ کی رٹ لگانے والی حکومت نے کرکٹ سے انجان شخص کو پی سی بی کا چیئرمین مقرر کر دیا ہے۔پی پی پی حکومت کی نظر میں کیا ذکاءاشرف ڈان بریڈمین تھے؟
قائم مقام چیئرمین یہ بھی کہتے ہیں سلیکشن کمیٹی کو ”فری ہینڈ“ دے دیا ہے۔ اس بیان کے دو پہلو ہیں، کیا پہلے سلیکشن کمیٹی کسی کے زیر اثر تھی اگر ایسا ہے تو پھر ان تمام بااثر افراد پر آئین کی شق 63، 62 کا اطلاق ہونا چاہئے گوکہ وہ انتخابات میں حصہ تو نہیں لے رہے تاہم ٹیم کے انتخاب پر تو اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ سلیکشن کمیٹی کو فری ہینڈ دینے کا نتیجہ نالائق کھلاڑیوں کی ٹیم میں شمولیت کے نتیجے میں بھگت رہی ہے۔ ہمارے ہاں سلیکٹرز تنخواہ دار اور سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پھر بھی وہ مصلحتوں کا شکار ضرور رہتے ہیں۔ کچھ کو علاقائی دباﺅ کا سامنا ہوتا ہے۔ کچھ بڑی سفارشوں کے دباﺅ میں آتے ہیں تو کچھ ٹیم کی گروپنگ کے زیر اثر ٹیلنٹ دشمن فیصلے کر جاتے ہیں۔ میڈیا کا دباﺅ بھی بہت کردار ادا کرتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو وہی شخص روک سکتا ہے جو خود کرکٹ سے واقفیت رکھتا ہو۔ اسے اونچ، نیچ کا علم۔ قائم مقام چیئرمین نے تمام ذمہ داری سلیکشن کمیٹی، ٹیم انتظامیہ کوچ اور کپتان پر ڈال کر خود کو اس عمل سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ تنقید سے بچ سکیں جبکہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ قومی ٹیم کی حتمی منظوری بہرحال چیئرمین کی ذمہ داری ہے۔ ایک مقامی اخبار کی سرخی کے مطابق عبوری چیئرمین نے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کی ذمہ داری سے بھی انکار کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کرکٹ سے متعلق تمام اہم امور کو انہوں نے تو دوسروں کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ تو کسی بھی طور حقیقی قائد کی نشانی نہیں ہے۔ قائد ہی کام کے معیار اور ترجیحات کا تعین کرتا ہے اور اپنی ٹیم کے لئے ذاتی کارکردگی سے مثال قائم کرنا ہے۔ چونکہ قائم مقام چیئرمین کو کرکٹ کا کچھ تجربہ نہیں ہے نہ تو عملی کرکٹ اور نہ ہی کرکٹ کے انتظامی معاملات۔ انہیں یہ عہدہ تو کچھ مخصوص کام سرانجام دینے کے صلے میں دیا گیا ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دامن بچا کر چلنا چاہتے ہیں۔
دلچسپ بات ہے کہ وہ کھیل کے معاملات سے تو خود کو الگ کر رہے ہیں۔ لیکن بورڈ کے 900 ملازمین کے حوالے سے بریفنگ لیں گے۔ ان کے بارے میں غور و فکر ہو گا۔ بورڈ کا بجٹ بنائیں گے اور اعلان کریں گے۔ کسی اخبار میں یہ بھی تھا کہ بورڈ کی آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہے۔ خزانہ خالی ہو رہا ہے۔ اس معاملے میں بھی زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور جن صاحب کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے روکنے کے بعد نجم سیٹھی کو یہ عہدہ ملا ہے ان کے دور شاہانہ کی تفصیلات اور غیر ضروری اخراجات پر ان سے حساب کتاب ضروری ہے۔ لیکن ان کی لندن سے واپسی پر!