منشیات کے خلاف لڑنے کے عزم کا عالمی دن

26جون دنیا میں ہر سال اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ ہم سب بنی نوع انسان کو گُھن کی طرح کھا جانے والے عفریت، منشیات ، کے خلاف لڑیں گے اور قبل اس کے کہ یہ کرہ¿ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو رفتہ رفتہ اپنے خون آشام جبڑوں تلے چبا چبا کر نگل جائے ہم خود اُسے نیست و نابو د کردیں گے۔
یہ امربے حد قابل افسوس ہے کہ اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم پر کام کرنیوالے ادارے UNODC کی رپورٹ کیمطابق 2011میں دنیا بھر میں چھیاسٹھ ہزار ٹن سے زیادہ کینابس ہرب (جس سے چرس بنتی ہے )، تقریباً دس ہزار ٹن چرس، آٹھ ہزار ٹن افیون، ساڑھے پانچ سو ٹن ہیروئن،گیارہ سو ٹن کوکین اورلاکھوں کی تعداد میں نشہ آور گولیاں ، کیپسول اور ٹیکے بنتے ہیں ۔ اور اس سے زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ نشہ آور گولیاں اور ٹیکے وغیرہ چھوڑ کر ، یہ تمام منشیات دنیا کے صرف آٹھ دس ممالک میں پیدا ہوتی ہیں اور اُن کا نوے فیصد صرف سات ممالک افغانستان، میانمار، میکسیکو ، کولمبیا، پیرو، بولیویا اور مراکش میں پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ منشیات دنیا کے اڑھائی سو سے زائد ممالک میں غیر قانونی طور پر پہنچادی جاتی ہیں ۔ اس صورت حال کا اس سے بھی زیادہ افسوس ناک پہلویہ ہے کہ اپنے اپنے ممالک میں منشیات کو داخل ہونے سے روکنے اور کسی نہ کسی طرح داخل ہوجانے والی منشیات کو عوام تک پہنچنے سے روکنے کیلئے دنیا بھر کے ممالک UNODCسمیت اس مقصد کیلئے بنائے گئے اداروں پر اربوں ڈالر سالانہ خرچ کر رہے ہیں جو پیدا ہونے والی اِن تمام منشیات کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے، لیکن دنیا بھر کے ممالک مل کران آٹھ دس ممالک کا ناطقہ بند نہیں کر سکے جو اس کو پید ا کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں پندرہ سال سے چونسٹھ سال تک کی عمر کے یعنی نوجوان اور کام کاج کرنے کے قابل افراد میںسے منشیات کے عادی افراد کی تعداد UNODC کی رپورٹ کے مطابق 2013تک بڑھتے بڑھتے پینتیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے ،جن میں تقریباًنوے لاکھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔
منشیات کی خرابیاں صر ف یہی نہیں ہیں کہ یہ قانونی یا مذہبی طور پر ممنوع ہے اور اس کی پیداوار، کاروبار ، خرید وفروخت اور استعمال کا مرتکب قانونی، مذہبی یا اخلاقی جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کی پاداش میں موت تک کی سزا کا سزاوار ہے ،اور یہ کہ اِن کو استعمال کرنے والا دل، جگر ، معدہ ،مونہہ اور پھیپھڑوں کے عوارضات کا شکار ہوکر، فالج، ایڈز ، ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسی جان لیوا بیماریوں کا لقمہ بن کر،اور گلے ، معدے ، جگر اور مثانہ کے کینسر ، بانجھ پن اور دماغی امراض کا نشانہ بن کر بالآخرایڑیاں رگڑ رگڑ کر درد ناک موت مرتاہے اور مرنے سے پہلے بے روزگار، سٹریٹ کرائم کا مجرم ،عملاًبے کار اورناکارہ بن کر خاندان ، معاشرہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ناقابل برداشت بوجھ بن چکا ہوتا ہے ، بلکہ اصل خرابی اوربربادی اس کے معاشرتی اور نفسیاتی عواقب اور تباہ کاریاں ہیں ۔ اور یہ خرابیاں مندرجہ بالا خرابیوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ہیں ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ نشے کے ہاتھوں نسلیں تباہ ہو رہی ہیں ، اخلاقی و مذہبی قدریں پامال ہورہی ہیں ، گھر بکھر رہے ہیں ، خاندان اُجڑ رہے ہیں ، رشتے ناطے ٹوٹ رہے ہیں ، جرائم بڑھ رہے ہیں ، حادثات بڑھ رہے ہیں ، غیر طبعی موتیں واقع ہو رہی ہیں ، انسانی جان بے قدر و قیمت ہورہی ہے ، کام کاج کے قابل افراد معذورو ناکارہ ہوتے جار ہے ہیں ، انسانیت سسکیاں لے رہی ہے اور انسان اشرف المخلوقات سے اسفل المخلوقات بنتا چلا جا رہا ہے ۔ اگرپاکستان میں منشیا ت کی لعنت کا پہلے سے شکار نوے لاکھ افراد میں ہر سال مزید پانچ لاکھ افراد شامل ہوتے چلے جائیں تو ہم کیسے یہ تسلی کئے بیٹھے ہیں کہ اُن پانچ لاکھ افراد میں جنہوں نے اس سال منشیات کی لعنت کا شکار ہونا ہے میرا یا آپ کا بھائی یا بیٹا شامل نہیں ہوگا ؟کیا پیش بندی اور کیا حفاظتی اقدامات میں نے یا آپ نے اس ضمن میں کر رکھے ہیں؟ خدا را! اپنے گھر ، اپنے گردوپیش اور اپنے اہل و عیال پر نظر رکھیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور عمر بھر کا پچھتاوا ہمارا مقدر بن جائے ۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...