علامہ طاہر القادری پاکستان واپس کیا آئے، ایک میدانِ کار زار سچ گیا۔ اسلام آباد سے لاہور تک نظام زندگی معطل ہو کے رہ گیا۔ حکومت بوکھلائی بوکھلائی اور گھبرائی گھبرائی سی نظر آئی۔ خاص طور پر وفاقی دارالحکومت طاہر القادری کے پیروکاروں سے بھرا پڑا دکھائی دیا۔ وہاں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ تمام تر سکیورٹی پلان اور رکاوٹوں کے سلسلے فلاپ ہو گئے۔ لاہور میں ان کے کارکن پہلے پہل کم تھے تاہم رفتہ رفتہ یہاں بھی جل تھل ہو گیا۔ اگرچہ علامہ صاحب اس ’’میدانِ کارزار‘‘ میں کوئی قابل ذکر کارنامہ تو سرانجام نہ دے سکے لیکن یہی کم کیا ہے کہ وہ گورنر سرور بھی خوب رہے کہ سر جھکائے علامہ صاحب کے ’’کوسنے‘‘ سُنتے رہے لیکن بالآخر انہیں گھر پہنچا کر ہی دم لیا اور یوں علامہ صاحب کے ممکنہ ’’انقلاب‘‘ کا بھی ’’دم‘‘ نکال دیا۔ اسے کہتے ہیں کامیاب حکمت عملی۔ کہاں علامہ صاحب کا اسلام آباد میں رونما ہونے والا مشہور و معروف ممکنہ ’’انقلاب‘‘ اور کہاں گورنر صاحب کے پروٹوکول کا ’’دامِ فریب‘‘ ۔ علامہ صاحب، انکے چاہنے والے، حکومت اور عوام سب حیران و پریشان ہیں کہ یہ ’’واردات‘‘ ہوئی کیونکر، کس نے کی؟ اور کس کے ساتھ کی … اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ حقیقت کچھ بھی ہو تاہم یہ بات بادی النظر میں قرین قیاس لگتی ہے کہ موصوف انتشار فکر میں مبتلا ہیں۔ منتشر خیالی اور اہداف کا عدم تعین ان کے افعال و اقوال سے صاف محسوس ہوتا ہے۔ وہ معاملات اور مطالبات کو بڑی تیزی کے ساتھ انتہائی بلندی پر لے جاتے ہیں اور پھر اسی تندی سے نشیب کی جانب لُڑھک آتے ہیں۔ تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ اعتدال کی سطح پر رکھیں۔ میں ذاتی طور پر علامہ صاحب کے علم و فضل کا گرویدہ ہوں اور انہیں خطیبِ بے بدل اور عالمِ عالم سمجھتا ہوں تاہم یہ بھی شاید ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ مروجہ ’’اشاروں کی زبان‘‘ کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ ’’پردے‘‘ کے پیچھے سے کچھ ادھورے ’’اشارے‘‘ پا کر اپنے لگے بندھے ’’مشن‘‘ پر چل نکلتے ہیں اور جب تادیر ’’پردہ‘‘ نہیں اٹھتا تو بادل نخواستہ وہ ’’درمیانی وقفے‘‘ کا اعلان فرما دیتے ہیں۔ ویسے یہ امر بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت نے اپنے دعوئوں اور وعدوں کے برعکس ان کے جہاز کا رُخ لاہور کی طرف موڑا ہی کیوں؟ اگر انہیں اسلام آباد میں اُترنے کا موقع دے دیا جاتا تو کونسا طوفان برپا ہو جاتا۔ زیادہ سے زیادہ علامہ صاحب ایک عدد جذباتی اور گرماتی تقریر فرماتے اور اپنے عقیدت مندوں کے جلو میں عازم لاہور ہو جاتے، اللہ اللہ خیر صلّا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید وغیرہ کو تو علامہ صاحب کی ہم نوائی کرنا بھی چاہئے کہ انہیں خود بھی ایک ’’ہجوم بے کراں‘‘ کی اس وقت اشد ضرورت ہے تاہم جس دن ایم کیو ایم اور عمران خان نے مکمل طور پر ان کی ہم رکابی اختیار کی اسی دن انقلاب اور تبدیلی کی جانب سفر کا آغاز ہو جائیگا لیکن … ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ آخرکار عمران خان اور ایم کیو ایم اس صورتحال کا حصہ کیوں نہیں بن پا رہے، شاید اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک انہیں ’’پردے کے پیچھے‘‘ سے کچھ واضح اشارے اور دوٹوک یقین دہانیاں نہیں کروا دی جاتیں وہ اس گرتے پڑتے نظام کو دھکا کیوں دیں گے۔ عمران خان تو اپنے آپ کو آئندہ کا ممکنہ وزیراعظم بنتے دیکھ رہے ہیں اور اس ’’فرضِ منصبی‘‘ کیلئے انہوں نے پوری ’’تیاری‘‘ بھی کر رکھی ہے۔ چنانچہ ایک ایسی عبوری اور نگران حکومت کیلئے وہ کیوں اپنی ’’تپسّیا‘‘ ضائع کریں گے جو ’’غیر معینہ‘‘ مدت کیلئے بھی ہو سکتی ہے۔
میدانِ کارزار
Jun 26, 2014