لاہور (خبر نگار+ خصوصی نامہ نگار+ کامرس رپورٹر+ لیڈی رپورٹر) وزیر اعلی پنجاب کے استعفے سے متعلق قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہ دیئے جانے پر اپوزیشن نے احتجاج اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ اجلاس میں میاں محمودالرشید نے قرارداد پیش کرنا چاہی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار شہباز شریف ہیں اس لئے وہ فی الفور اپنے عہدہ سے مستعفی ہو جائیں۔ انہوں نے قرارداد پڑھنا شروع کی تو ڈپٹی سپیکر نے انہیں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر قرارداد پڑھنے سے روک دیا جبکہ صوبائی وزیر انسانی حقوق طاہر خلیل سندھو نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری کی جا رہی ہے اس لئے اس سانحہ سے متعلق کسی قسم کی قرارداد ایوان میں نہیں لائی جا سکتی۔ قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن اجلاس سے واک آؤٹ کر گئی اور اسمبلی کی سیڑھیوں پر وزیر اعلیٰ استعفیٰ دو کے نعرے لگائے۔ بعدازاں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر، پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سردار شہاب الدین اور دیگر اپوزیشن ارکان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے وزیر اعلی کے استعفیٰ سے متعلق قرارداد منگل کے روز پنجاب اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کروائی تھی۔ وزیراعلی نے خود اعتراف کیا کہ انہیں اٹھارہ گھنٹے تک جاری رہنے والے سانحہ سے متعلق علم نہیں تھا۔ میں نے اس روز پنجاب اسمبلی میں بھی اس معاملہ کو اٹھایا جس پر کان نہیں دھرے گئے بعد ازاں نعشیں گرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وزیراعلی کی لاعلمی سے ان کی گڈگورننس بے نقاب ہو گئی ہے۔ اس لئے وہ فی الفور استعفی دیں اور وزیر اعلی کا منصب مسلم لیگ ن کے کسی اور رکن کو سونپ دیں۔ وزیراعلی نے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو برطرف کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ اب بھی غیر سرکاری طور پر ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک میں بیٹھ کر تمام معاملات نمٹا رہے ہیں اور ان کے دستخطوں سے فائلیں آگے جار ہی ہیں جبکہ ان کی جگہ بنائے گئے پرنسپل سیکرٹری امداد اللہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ڈاکٹر توقیر شاہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ اگر ڈاکٹر توقیر شاہ کو معطل کیا گیا ہے یا اوایس ڈی بنایا گیا ہے تو اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اور وہ سرکاری امور نمٹانا بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ نوٹیفیکشن ایوان میں پیش کیا جائے۔ محمود الرشید نے کہا ہے کہ شہباز شریف اور چودھری نثار ملکر سازشیں کر رہے ہیں کیونکہ شہباز شریف وزیراعظم بننا چاہتے ہیں‘ 10کروڑ عوام کا صوبہ لاوارث ہیں جبکہ شہباز شریف وفاقی حکومت کے معاملات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ضمنی بجٹ کی بحث کے دوران ماجد ظہور نے کہا کہ اپوزیشن نے بجٹ اجلاس میں کورم کی نشاندہی کر کے ایک اور منفی روائت قائم کی ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاسی بصیرت کے باعث آج الگ صوبے کا مطالبہ کرنے والے جنوبی پنجاب کے محرومیوں کے شکار عوام بھی جمال لغاری سمیت بجٹ میں دی گئی ترغیبات پر نا صرف خوش ہیں بلکہ الگ صوبے کے مطالبے کی سوچ پر نظرثانی پر بھی مجبور ہو گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ موجودہ مالی سال کا ضمنی بجٹ گذشتہ برس کے مقابلے میں 74 فیصد کم ہے۔ گذشتہ برس اس کے لئے 82 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی تھی جبکہ ا س سال 21 ارب روپے سے زائد کا ضمنی بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ پولیس کے فنڈ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس سال پنجاب میں چائنا ترکی سمیت مختلف ممالک سے سرمایہ کاری کے لئے وفود آئے ان کی سکیورٹی و دیگر انتظامات کے باعث وزیراعلیٰ کے دفتر کے اخراجات میں اضافہ ہوا۔ ترقیاتی بجٹ کے استعمال کے حوالے سے فرضی اعداد و شمار پر اپوزیشن کا واویلا درست نہیں۔ اپوزیشن ارکان سبطین خان، سردار شہباب الدین خان اور ڈاکٹر سید وسیم فاروق نے اصل بجٹ کے علاوہ اضافی اخراجات کرنے پر حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے 22 ارب روپے اضافی خرچ کئے۔ اگر خرچ ہی کرنے تھے تو تعلیم، صحت جیسے شعبوں پر خرچ کئے جاتے لیکن جن محکموں میں کرپشن زیادہ ہے انہوں نے اضافی اخراجات کی ڈیمانڈ کی ہے۔ حکومت نے سود کے خاتمے کے لئے کوئی اقدام نہیں کئے۔ حکومتی ارکان اسمبلی کنیز اختر، نبیرہ عندلیب، ہیری گل نے کہا کہ بجٹ انتہائی بہترین ہے اس پر ہم وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر خزانہ پنجاب کو مبارکباد دیتے ہیں۔