’’صدر‘‘ زرداری بھی رحمان ملک کے ساتھ دبئی چلے گئے۔ وہ بلاول کو بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ انہیں شک تھا کہ پاکستان میں بلاول اپنی بات بنا لے گا اور زرداری پارٹی کو دوبارہ پیپلز پارٹی بنا لے گا۔ سیاستدان بن جائے گا۔ فریال تالپور پہلے ہی چلی گئی تھیں۔ غالباً جتوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ ’’کنگ اور کوئین‘‘ کوئین انہوں نے فریال تالپور کو کہا ہے۔ وہ ’’صدر‘‘ زرداری کی بہن ہیں تو کیا ہوا، بہن بھی تو کوئین ہو سکتی ہے۔ جیالوں کی کوئین تو وہی ہے۔ آخر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مرد اول بھی ’’صدر‘‘ زرداری تھے۔ ہمارے جمہوری پارلیمانی نظام میں سب جائز ہے۔ جتوئی صاحب نے کہا کہ اب کالیا تیرا کیا بنے گا۔ کالیا کے لئے کسی وزیر کا نام تو انہوں نے لیا مگر میں صحیح طرح سن نہ سکا۔ شاید قائم علی شاہ ہوں ورنہ شرجیل میمن ہوں گے۔ مجھے خطرہ تھا کہ ’’صدر‘‘ زرداری اور رحمان ملک چلے جائیں گے۔
بی بی سی پر ایم کیو ایم کے خلاف بھارت سے فنڈنگ لینے کی خبر کیا چلی اس کا پہلا ردعمل یہ ہوا۔ لندن سے ایک میڈیا دوست نے بتایا کہ دوسری خبر ’’صدر‘‘ کیلئے تھی پہلی زرداری پارٹی کیلئے۔ پیپلز پارٹی کیلئے نہیں ہو گی۔ وہ تو ’’صدر‘‘ زرداری نے ایوان صدر سے ہی ختم کر دی تھی ورنہ فریال تالپور اور شیری رحمان زرداری پارٹی کی کوئین کیوں ہوتیں۔ شازیہ مری ڈپٹی کوئین ہیں۔ مجھے تو آج پیپلز پارٹی میں ایک ہی خاتون کسی حد تک جینوئن لگتی ہے اور وہ شہلا رضا ہیں۔ وہ ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی ہیں تو کیا ہوا۔ ذوالفقار مرزا نے وطن چھوڑنے میں پہل کی لہٰذا وہ رحمان ملک سے آگے نکل گئے ہیں۔ اس میں راز کیا ہے؟ وہاں ان کی ملاقات عمران خان سے ہو گی ورنہ فہمیدہ مرزا کی ملاقات جمائما خان سے بھی ہو گی۔ اس بار لندنی بچوں کے علاوہ بچوں کی ماں سے ملنے کا بیان بھی عمران خان نے دیا ہے تو وہ دوبارہ جمائما خان ہو گئی ہیں۔ اس پر ریحام خان کو اعتراض نہیں ہے۔ وہ شادی سے پہلے بھی ’’خان‘‘ ہیں۔
جس شام ’’صدر‘‘ زرداری رحمن ملک کے ساتھ دبئی گئے ہیں اسی شام قائم علی شاہ اور شرجیل میمن نے اپنے ذاتی ساتھیوں سے مل کر دھرنا دیا جو وفاقی حکومت کے خلاف تھا۔ نواز شریف اور خواجہ آصف کے خلاف نعرے لگے تھے۔ شہباز شریف کے خلاف بھی لگے کہ ابھی ’’صدر‘‘ زرداری سے معافی مانگنے کی سیاسی استدعا قبول نہیں کی گئی ہے۔ لوڈ شیڈنگ بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ہزاروں لوگ کراچی میں مر گئے۔ لاہور میں شکر ہے کہ ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔ شہباز شریف کو مبارکباد ہو۔ قائم علی شاہ کو اپنے لوگوں کے مرنے کی اتنی فکر نہیں ہے۔ انہیں یہ حیرت ہے کہ لاہور میں ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں بھی دوبارہ وزیراعلیٰ سندھ بنایا گیا ہوں۔ فرق یہ ہے کہ شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے ہیں۔
خواجہ آصف نے جمعرات کو قومی اسمبلی میں یہ تقریر کی۔ وہ بہت سیاسی تھی بلکہ غیرسیاسی تھی۔ کراچی کے مرنے والوں کے لئے یہ بات انہوں نے نہیں کی۔ کوئی بھی سینے میں دل رکھنے والا آدمی نہیں کر سکتا۔ آج وہ بجلی و پانی کے وزیر کے علاو وزیر دفاع لگے ہیں کہ اپنا دفاع تو ہمارے سیاستدان کو اپنوں کے سامنے کرنا ہی ہوتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں شرجیل میمن کی تقریر سے خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں تقریر مختلف نہیں تھی اور تقریر سے تقدیر نہیں بدلتی۔ پاکستان میں سیاستدان صرف تقریر کرتے ہیں کہ ان کی ذاتی تقدیر ایسی ہے کہ تقریر کی اسے ضرورت نہیں ہے۔
مجھے دکھ ہوا کہ خواجہ آصف نے کراچی میں بہت اذیت اور ذلت کی موت مرنے والوں کے لئے دکھ کا اظہار نہیں کیا نہ ان کے لئے دعائے خیر کی گئی۔ فاتحہ خوانی تو تب ہو گی جب وہ دفن ہوں گے۔ اب اس ملک میں غریبوں اور عام لوگوں کو خبر نہیں ملتی۔ جب یہ خبر آئی کہ قبرستان کم ہو گئے، ہسپتالوں میں کوئی جگہ نہیں۔ سرد خانوں میں اب کوئی گنجائش نہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ کبھی تو حکمرانوں کے لئے بھی یہ وقت بھی آئے گا جو آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر پہ آیا تھا۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ شعر میرے ذہن میں تھا مگر اب کوئی یار کوئے قاتل بن گیا ہے۔ میں ہمیشہ استاد محترم المحبوب علوم کے ہجوم میں ادبی اور ابدی منزلوں کی طرف سفر کرنے والے شفیق انسان ڈاکٹر پروفیسر خواجہ محمد زکریا سے بات کر لیتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے مجھے اپنی بے شمار محبت میں شامل نہ کیا ہو۔ میں نے انہیں کبھی سیاست پر گفتگو کرتے نہیں سنا۔ یہی ان کے ایک باکمال اور جینوئن دانشور محقق کی پکی اور سچی نشانی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر مجاہد کامران نے انہیں یونیورسٹی کی لٹریری ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کے لئے ڈائریکٹر مقرر کیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے چھ سات جلدیں شائع کی ہیں۔ اور بھی کام جاری ہے۔ خواجہ صاحب مجید امجد کے حافظ اور محافظ ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران بھی مجید امجد کے عاشق ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے ماحول کو تعلیمی تخلیقی اور تحقیقی بنانے کے لئے بڑا کام کیا ہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر پروفیسر شازیہ قریشی بھی علمی اور انتظامی معاملات کے لئے ان کی بہت بڑی معاون ہیں۔ یہ اتفاق کم کم ہوتا ہے کہ دونوں میاں بیوی کا اچھی انگریزی کے لئے راستہ بھی ایک اور منزل بھی ایک ہو۔ میں چونکہ بنیادی اور فطری طور پر شاعر ادیب ہوں مگر کالم نگاری کی طرف نکل آیا ہوں۔ میرے خیال میں کالم نگاری سالم نگاری ہے اور میں کہتا ہوں کہ کالم جلدی میں لکھا ہوا ادب ہے۔ آج کل سب کام جلدی جلدی میں کرنا پڑتے ہیں۔ آدمی کو جلدی کرنا چاہئے۔ جلدی جلدی نہیں کرنا چاہئے۔ جلدی جلدی مچانے سے جلد بازی جنم لیتی ہے جو اچھی نہیں ہوتی ہے۔
میں نے بات لوڈ شیڈنگ سے شروع کی تھی۔ اب یہ محاورہ بن گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں کسی نے کہا کہ خواجہ آصف کی لوڈ شیڈنگ شروع ہونے والی ہے۔ آج خواجہ آصف نے اسی شخص کو یا کسی اور کے جملہ کسنے پر کہا کہ تمہاری لوڈ شیڈنگ شروع ہونے والی ہے۔ اب حکومتی کاموں میں بھی لوڈ شیڈنگ ہی رہتی ہے۔ کراچی میں خوفناک لوڈ شیڈنگ پہلے نہ ہوئی تھی۔ یہاں مرنے والوں کی مصیبت سیاست میں داخل ہو چکی ہے اور ’’صدر‘‘ زرداری کی بھی خبر نہیں۔ وہ دبئی چلے گئے۔ وہ نواز شریف کے بعد اپنی باری کے منتظر تھے۔ ان کی باری الطاف حسین کے بعد آ گئی ہے۔ جیالے کہتے ہیں کہ باری نواز شریف کی بھی آئے گی۔ مگر سیاستدانوں کو ملک سے باہر نہیں جانے دینا چاہئے۔ یہی وقت ملک سے دہشت گردی اور دہشت گردی جیسی لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کا ہے اور صرف سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف ہی ختم کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی تو تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ دہشت گردی کے خاتمے میں رکاوٹ بنایا گیا ہے۔ اس کے لئے خواجہ آصف سے پوچھیں۔ وہ وزیر دفاع ہیں۔ ان سے جنرل صاحب خود پوچھ سکتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ کالا باغ ڈیم بنا لیا جائے۔ اب کراچی سندھ کے لوگ جس مشکل میں ہیں وہ ایک بڑی آسانی حاصل کرنے کے لئے سیاستدانوں کی حمایت نہیں کریں گے۔ کالا باغ ڈیم کے حامی ہو جائیں گے۔ جنرل صاحب کالا باغ ڈیم کے لئے اعلان کریں۔ نواز شریف بھی اب حمایت کریں گے تو پھر خواجہ آصف بھی حمایت کریں گے۔ چودھری نثار تو پہلے ہی آپ کے ساتھ ہیں۔
اسمبلی میں صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کا وقت نہیں ہے۔ کالا باغ ڈیم بنانے کا وقت ہے۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ کالا باغ پر کام دوبارہ شروع ہوتے ہی لوڈ شیڈنگ کا مصنوعی اور جعلی بلکہ سیاسی مسئلہ حل ہو جائے گا۔
پیپلز پارٹی کے رینٹل وزیر بجلی و پانی راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا تھا کہ کالا باغ ڈیم کا معاملہ ختم کر دیا گیا ہے۔ مگر اب راجہ صاحب ہی اعلان کریں گے کہ یہ معاملہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ مخالفت کچھ لوگوں کے بقول نورا کشتی ہے۔ زرداری کے ساتھ رحمان ملک اور بلاول کا جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ملک میں بڑی نورا کشتی ہو رہی ہے۔ میں تو پریشان ہوں کہ بے چاری ایان علی کا کیا بنے گا۔ اب وہ دبئی کبھی نہیں جا سکے گی۔ اب اس کے لئے زرداری اور رحمان ملک کے خلاف بولنا آسان ہو گا۔ جیل میں بھی اس کے لئے مشکل حالات شروع ہوں گے کہ زرداری صاحب پاکستان میں نہیں ہیں اور وہ نواز شریف پر دبائو نہیں ڈال سکیں گے۔
کہتے ہیں ’’صدر‘‘ زرداری واپس آئیں گے۔ اسے معلوم ہے کہ شہید بی بی نے واپس آ کے کیا حاصل کر لیا تھا۔ جبکہ انہیں دبئی سے دوبارہ پاکستان بھیجنے والے خود زرداری تھے۔ اب ’’صدر‘‘ زرداری کو پاکستان کون بھیجے گا؟ بلاول نے کوشش کی تو ’’صدر‘‘ زرداری اپنے سے پہلے بلاول کو پاکستان بھیجیں گے؟ اس نورا کشتی کے درمیان جنرل راحیل شریف کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کریں۔