سریلی آواز اور الحان کی تاثیر۔۔۔!

چڑیوں کی آواز بھی خوش ہے اور مرغوب ہوتی ہے لیکن حرام نہیں ہے۔اچھی آواز کان کے حق میں ایسی ہے جیسے آنکھ کے حق میں سبزہ اور ناک کے حق میں بوئے مشک اور زبان کے حق میں لذیذ طعام اور عقل کے حق میں اچھی اچھی حکمتیں تو دل کی لذت کے لئے سماع کیوں حرام ہو گا؟ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؒ روایت کرتی ہیں کہ عید کے دن دو کنیزیں میرے پاس دف بجا کر گاتی تھیں،رسول اللہ ؐ میرے پاس تشریف لائے اور دوسری طرف منہ کرکے بچھونے پر سو رہے۔ابو بکر صدیق ؓ تشریف لائے اور ان کنیزوں کو دف بجانے سے منع فرمایا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ آج عید کا دن ہے انہیں گانے بجانے دو۔اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دف بجا کر گانا مباح ہے۔رسول اللہ ؐ مدینہ منورہ پہنچے تو لوگ آپ ؐ کے آگے دف بجا بجا کر آپ کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے رہے۔قوالی ، نعت ، گانے یا اشعار گناہ یا حرام نہیں بلکہ انسا ن کی سوچ حرام یا حلال ہوتی ہے۔عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی صرف بندہ جانتا ہے کہ اس کے اندر کون سی آگ دہک رہی ہے ۔ دور حاضر کے برصغیر میں سماع میں جن دو اشخاص نے شہرت پائی وہ حاجی غلام فرید صابری مرحوم اور مقبول صابری ہیں۔صابری برادران نے سماع کو پھر سے حیات بخشی ۔ تاجدارِ حرم ہو نگاہ کرم ۔۔۔بھر دو جھولی میری یا محمد ؐ۔۔۔میں خواجہ کی دیوانی۔۔۔شرابی چھوڑ دے پینا۔۔۔صلی لا مکاں سے طلب ہوئی۔۔۔جیسی بے شمار قوالیو ںنے شہرت پائی۔آقاﷺ کا ذکر ہوتا ہے تو صابری برادران کی قوالیوں کی مہک روح کو معطر کر دیتی ہے ۔آج جن بزرگوں کے مزاروں پر سماع اور رقص و سرور دیکھا جاتاہے ان بزرگوں کی تعلیمات اور عملی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو اپنے اعمال پرشرمندگی محسوس ہو گی۔ آجکل کے اکثرنعت خواں اور قوال فلمی گانوں کی دھنوں میں کلام پڑھنے لگے ہیں۔بھارتی گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھی جاتی ہے۔سننے والا تخیل میں اللہ کے خیال کی بجائے فلمی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔اشعارکے چنائو میں بے ادبی ہورہی ہے۔شہرت اور پیسے کی ہوس میں سماع اور نعت کی اصل روح ختم ہوتی جا رہی ہے۔نعت سنانے اور سننے کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔ رقص اوردھمال کو ایک گروہ نے اپنا مذہب بنا لیا ہے۔حضرت جنید بغدادیؒ کاایک مرید سماع میں وجد کے حال میں چلا جاتاتھا۔آپ نے اس مرید سے کہا کہ اگر اس کے بعد سماع میں تو نے بے قراری ظاہر کی تو میں تجھے اپنا ہم نشین نہیں رکھونگا۔سماع میں مبالغہ نہ کیا جائے۔شعر کا سننا مباح ہے اور نبی اکرم ﷺ نے بھی سنا اور صحابہ کرام ؓ نے بھی اشعار کہے اور سنے ہیں۔حضور ؐ نے فرمایا کہ بلا شبہ بعض شعر حکمت ہیں۔عمر بن الشرید ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیںکہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے شعر پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے پوچھا کہ کیا تو امیہ ابن اُبی کے اشعار میں سے کچھ سنا سکتا ہے ؟ تو میں نے آپ کو ایک سو شعر سنائے اور جب میں ایک شعر ختم کرتا تو حضور ؐ فرماتے کچھ اور سنائو پھر حضور ؐ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ امیہ شعر میں مسلمان ہو جاتا‘‘۔کچھ لوگ اشعار سننے کو حرام کہتے ہیں جبکہ رات دن مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں ۔خوش آوازیں کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن پڑھنے میں اپنی آوازوں کو سنوارو‘‘۔صوفیاء کہتے ہیں کہ خوش اور سریلی آوازوں سے تمام جانداروں کی طبیعتیں خوش ہوتی ہیں۔حضرت ابراہیم خواص ؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک عرب قبیلہ کے امیر کا مہمان تھا۔اس کے دروازے پر میں نے ایک حبشی کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دھوپ میں پڑا دیکھا۔میرے دل میں رحم پیدا ہوا اور سوچا میر سے اسے اپنے لئے مانگ لوںگا۔امیر نے میری خوب خاطر مدارات کی۔میں نے امیر سے سے کہا کہ اس غلام کو میرے کام کے لئے مقرر کر دیجئے۔اس نے کہا کہ پہلے اس کا جرم پو چھ لے اور پھر اسے چھڑا لینا۔میں نے اس کا جرم جاننا چاہا تو امیر نے بتایا کہ یہ غلام بہت خوش الحان ہے۔میں نے اس کو اپنی زمین پر کچھ اونٹ دے کر بھیجاکہ وہ میرا غلہ لاد کر لائے۔چنانچہ وہ شتر بان چلا گیا اور اونٹوں پر بھاری بوجھ لاد کر راستے میں اشعار گاتا رہا اور اونٹ دوڑتے رہے یہاں تک کہ تھوڑے عرصہ میں بھاری بوجھ لے کر میرے پاس آن پہنچے۔میں ان پر سے غلہ اتارنے کا حکم دیا ۔جب اونٹوں سے بوجھ اتارا گیا تو وہ سب ہلاک ہو گئے۔حضرت ابراہیم خواصؓ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ سن کر مجھے سخت تعجب ہوا ۔اس دوران چند اونٹ جنگل سے پانی پلانے کے لئے کنویں پر لائے گئے۔امیر نے ان شتر بانوں سے پوچھا کہ ان اونٹوں نے کتنے روز سے پانی نہیں پیا؟انہوں نے جواب دیا کہ تین روز سے ۔امیر نے حبشی غلام کو ان اونٹوں کے سامنے اشعار گانے کو کہا۔ اونٹ غلام کو سننے میں ایسے مشغول ہوئے کہ کسی نے پانی کو منہ نہیں لگایا۔یہ مشاہدہ ہے کہ شتربان اور گدھے والا جب راستے میں گاتا ہے تو اونٹ اور گدھا سرور کی حالت میں ہو جاتا ہے اور ملک خراسان اور عراق میں تو یہ عادت ہے کہ شکاری جب رات کے وقت ہرن پکڑتے ہیں تو وہ ایک طشت بجاتے ہیں۔ہرن اسکی آواز سن کر اپنی جگہ پر کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ اس کو پکڑ لیتے ہیں۔بچے جب گہوارے میں روتے ہیں تو کوئی شخص سریلی آواز میں لوری دیتا ہے تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔حضرت دائود ؑ کو اللہ تعالیٰ نے خوش الحانی عطا کی۔آپ کے گلے کو ساز بنایا یہاں تک کہ وحشی جانور اور پرندے پہاڑوں اور جنگلوں سے آپ کی آواز سننے کے لئے دوڑے آتے۔بہتے ہوئے پانی تھم جاتے اور پرندے اڑتے اڑتے گر پڑتے۔آپ کی نغمہ سرائی سے جنگل کے جانور کچھ نہ کھاتے،روتے ہوئے بچے خاموش ہو جاتے اور نہ دودھ مانگتے۔کئی جاندار آپ کی سریلی آواز سے مردہ پائے جاتے ۔محفل سماع اور نعت خوانی روحانی محافل ہیں۔ان میںاللہ اور اس کے حبیبﷺ کا ذکرہوتا ہے ۔ ہوشمندوں کو نذرانہ پیش کرنے اورکلام سننے کے ادب و آداب کی تعلیم حاصل کر نا چاہئے ۔حضرت یحیٰ معاذ رازیؒ نے فرمایا ’’تین قسم کے لوگوں سے اجتناب کرو۔غافل عالموں،خوشامدی فقیروں اور جاہل صوفیوں کی صحبت سے‘‘ ۔ جب عوام نے رسمی صوفیوں کو دیکھا اور ان کا ناچنا،بادشاہوں کی درگاہوں میں جانا،دینوی غرض اور خوراک کے لئے آپس میں جھگڑنامعلوم کیا تو تمام صوفیوں سے ہی بداعتقاد ہو گئے اور بھول گئے کہ یہ زمانہ نبوت نہیں ۔جب حرص بادشاہ کو ظلم میں ،ہوس عالم کو بدکاری میں اور ریاکاری زاہد کو نفاق میں ڈال سکتی ہے تو جہالت صوفیوں کو بدنام کیوں نہیں کرسکتی ؟سریلی آواز اور الحان کی تاثیر سے دل کا مسرور ہونا فطری امر ہے۔سماع کا سننامباح ہے۔ غیبت، چغلی ، گالی گلوچ اورغیر مہذب گفتگو کا سننا حرام ہے۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن