افغان اور بھارتی جاسوس ایجنسیاں افغانستان سے پاکستان میں دہشتگردی کرا رہی ہیں، آرمی چیف کو بریفنگ
پارا چنار، کراچی اور کوئٹہ میں دہشتگردی کے ہولناک واقعات کے بعد آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت جی ایچ کیو میں اہم اجلاس ہوا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اجلاس میں ملک کی موجودہ سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ شرکاءکو حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاک فوج نے دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنی بساط سے بڑھ کر لڑی اب افغانستان کی باری ہے کہ وہ دہشت گردی کے اس ناسور کو ختم کرے، نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوا، ہماری قربانیوں کو صحیح انداز میں تسلیم نہیں کیا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میںتمام قربانیوں کے باوجود ڈومور کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جس نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ افغانستان سمیت اب دیگر فریقین ڈومور کریں۔ خطے میں امن و استحکام کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ آرمی چیف نے خطے کے امن و استحکام کیلئے کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور دہشت گرد کارروائیاں روکنے پر سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو سراہا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بریفنگ میں آرمی چیف کو بتایا گیا کہ حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے ملتے ہیں، افغانستان میں دہشت گردوں کو این ڈی ایس اور ’را‘ کی سرپرستی حاصل ہے۔ پاک فوج نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کو پوری طاقت سے ختم کیا جائیگا۔
دہشتگردی کی نئی لہر قوم کیلئے پریشان کن ہے۔ دہشتگردوں نے عید کی خوشیاں غارت کرنے کی کوشش کی۔ سکیورٹی ادارے ان کی سرکوبی کیلئے ہمہ تن کوشاں ہیں۔ کومبنگ اپریشن تیز کر دیا گیا ہے۔ سکیورٹی ادارے دہشتگردوں کا ممکنہ حد تک تعاقب کر رہے ہیں۔ پارہ چنار میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے شہداءکی تعداد ستر ہو گئی ہے۔ دہشتگردوں کی مزید ممکنہ بھیانک کارروائیوں کے پیش نظر فوج الرٹ، حالات اور دہشتگردوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔
پشاور میں دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا جہاں سکیورٹی فورسز نے ایک فلور مل میں بم بنانے کی فیکٹری پکڑ لی۔ فورسز کے مشترکہ ہیں آپریشن میں 3 دہشت گرد سرغنہ سمیت ہلاک ہو گئے جبکہ ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ جھڑپ میں سکیورٹی فورسز کے 5 اہلکار بھی زخمی ہوئے، دہشت گرد کمانڈر کے بیوی بچوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ آرمی کے جوانوں نے دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کے بعد سرچ آپریشن کیا۔ ہلاک دہشت گردوں کے قبضے سے 600 سے زائد ڈیٹونیٹر، بارودی مواد اور خودکش جیکٹس بنانے کاسامان، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، دستاویزات، موبائل فونز، حساس مقامات کی ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں۔ سہولت کار قاری نذیر نے دہشت گردوں کےلئے فلور مل کرائے پر لی تھی، افغان سہولت کار قاری نذیر خود بھی سزا یافتہ دہشت گرد ہے، سکیورٹی ذرائع کے مطابق سہولت کار قاری خود کش جیکٹ بنانے کا ماہر ہے جو اسی جرم میں 3 دن پہلے جیل سے رہا ہوا، قاری نذیر کی دوبارہ گرفتاری کےلئے سکیورٹی ایجنسیاں دوبارہ متحرک ہوگئی ہیں۔ اُدھر فرنٹیئر کوربلوچستان اور حساس اداروں کی ردالفساد آپریشن کے تحت کارروائیوں میں پشین، ڈیرہ بگٹی اور کاہان میں کالعدم تنظیموں کے کیمپوں کو تباہ کرکے ایک اہم دہشت گرد کو گرفتار کر کے بھاری مقدار میں اسلحہ وگولہ بارود برآمد کر لیا چمکنی میں ہلاک ہونے والے 2 دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی ہے جو بین الاقوامی شدت پسند تنظیم داعش کے کارندے نکلے۔ ایک دہشت گرد کی شناخت افغان مہاجر خلیل کے نام سے جبکہ دوسرے دہشت گرد کی شناخت فضل امین المعروف عمر کے نام سے ہوئی ہے۔ ٹھکانے کا سراغ چند روزقبل پولیس پرحملے میں ہلاک کمانڈر مصطفی کی تفتیش سے ملا۔ ادھر لاہور شہر کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشنوں کے دوران متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
سکیورٹی ادارے دہشتگردوں کے خلاف جس طرح متحرک اور کمٹڈ ہیں۔ جوان اور افسر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، اس کے باعث تو اب تک دہشتگردوں کا نام و نشان مٹ جانا چاہئیے تھا یا کم از کم دہشتگردی کے خلاف جنگ کا منطقی انجام قریب ہوتا نظر آنا چاہئیے تھا مگر سردست اس جنگ کے انجام کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ گو سیاسی و عسکری قیادت دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایک پیج پر ہیں مگر کہیں نہ کہیں سسٹم میں خامیاں ضرور ہیں۔ مصلحتیں بھی در آتی ہونگی جو دہشتگردوں کے قلع قمع کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سہولت کاروں کے خلاف جس شدت کے ساتھ کارروائی ہونی چاہئیے اس کی کمی نظر آتی ہے۔ داعش کے وجود سے سرکاری سطح پر انکار کیا جاتا رہا اب اس کے کارندے پکڑے جا رہے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز پاکستان میں داعش کی نمائندگی کے دعوے کرتے رہے مگر وہ آزاد ہیں۔ قاری نذیر قبیل کے خطرناک مجرم کس طرح رہا ہو جاتے ہیں؟ ملک کے اندر سے دہشتگردوں ان کے سرپرستوں، سہولت کاروں اور حامیوں کے خلاف کڑے اقدامات کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کی بیرونی امداد بند کرنا اور رابطے ختم کرنا بھی ناگزیر ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریہ نے کہا ہے کہ حالیہ دہشتگردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ ملوث ہے جس کے مصدقہ شواہد بھی موجود ہیں جبکہ دہشتگردی کی اس لہر میں بھارتی حکومت کے ہاتھ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کابل سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہے۔
افغانستان میں امن کے قیام میں پاکستان کا اخلاص شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر خود افغان حکمران اپنے ملک میں امن کیلئے کوشاں نہیں ہیں۔ طالبان ایک حقیقت ہیں افغان حکمران ان کو اقتدار میں شامل کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ افغان سرزمین بھارت پاکستان میں مداخلت کیلئے استعمال کرتا ہے۔ افغان انتظامیہ محض ذاتی مفادات کیلئے بھارت کو پاکستا ن میں مداخلت کیلئے کھل کھیلنے کا موقع دے رہی ہے۔ کئی اسلامی ناموں والی شدت پسند تنظیمیں بھی بھارت کے پے رول پر ہیں سانحہ مہران میں بھارت نے انہیں کو استعمال کیا جس کا انکشاف بھارتی جاسوس کلبھوشن نے اپنے ویڈیو بیان میں کیا ہے۔ بھارت کے داعش کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ بھارت کے ایماءپر یہ بھی افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی کرتی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پارہ چنار کے المناک سانحہ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد کھولنے پر پاکستان میں دہشتگردی بڑھ جاتی ہے۔
ہمیں دہشتگردی کے اندر سے خطرات کی طرح باہر سے بھی ہیں، خصوصی طور پر افغانستان سے۔ جہاں حکمران پاکستان کے بارے میں خبث رکھتے ہیں اور بھارت کے پاکستان مخالف ایجنڈے کی تکمیل میں کردار ادا کرنے میں ذرا سی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ افغانستان کے حالات کے بگاڑ میں خود ان کی اقتدار کی ہوس کا عمل دخل شامل ہے مگر وہ ہر الزام پاکستان پر دھر دیتے ہیں۔ پاکستان جب ان کے الزامات کے پیش نظر بارڈر مینجمنٹ کی بات کرتا ہے تو بھارت کے ایماءپر ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اب افغان بارڈر پر پاکستان کی طرف سے باڑ لگانے اور دیوار بنانے کی تیاری ہو رہی ہے تو افغان حکومت اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ یہ افغان حکمرانوں کی اپنے ہی ملک میں قیام امن کیلئے بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔آرمی چیف نے بجا کہا ہے کہ اب افغانستان کو ”ڈومور“ کرنا ہو گا۔ افغانستان پاکستان میں دہشتگردوں کو سہولیات دینے میں جو کردار ادا کر رہا ہے اصولی طور پر تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ضرورت ہے مگر پاکستان ممکنہ حد تک ایسا کرنے سے گریز کر رہا ہے مگر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پاکستان کب تک برداشت کریگا اور تحمل سے کام لے گا؟ اس کا ادراک افغانستان کو ہونا چاہئیے۔ حالات نے اگر ایسا رخ کیا کہ پاکستان افغانستان کے خلاف آخری حد تک جانا پڑا تو بھارت اس کی مدد کو نہیں آئے گا۔ پاکستان حتی الوسع حالات اس نہج پر لے جانے گریز کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ پاکستان افغان بارڈر پر باڑ اور دیوار اتنی اونچی بنا دے کہ دہشتگردوں کیلئے اِدھر جھانکنا بھی ممکن نہ رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹری پوائنٹس پر بغیر دستاویزات کے کسی کو آمدروفت کی قطعی اجازت نہ دی جائے۔