25 جولائی کے الیکشن کے لیے پی ٹی آئی نے پہلے مرحلے میں قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستوں کے لیے 173 اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 290 امیدواروں کا اعلان کر دیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر جو واویلا مچا وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے الیکٹ ایبلز کا پچھلے چند روز میں اتنا شور رہا کہ یوں لگتا تھا کہ پی ٹی آئی نے 25 جولائی سے پہلے ہی میدان مار لیا ہے لیکن مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے 23 جون کو پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 جنرل نشستوں کے لیے جن 112 امیدوروں کا اعلان کیا ہے ان میں 75 امیدوار گھر جانے والی 2013 کی قومی اسمبلی کے ارکان ہیں، 5 ایسے ہیں جو 2013 کی قومی اسمبلی کے ارکان کے بھائی اور بیٹے ہیں جبکہ 8 وہ ہیں جو ماضی قریب میں قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ گویا مسلم لیگ ن نے 88 الیکٹ ایبلز اور 24 سیاسی کارکن میدان میں اتارے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے الیکٹ ایبلز کی تعداد پی ٹی آئی کہ الیکٹ ایبلز سے بڑھ گئی ہے۔ فیصلہ بہرحال 25 جولائی کو ووٹر نے کرنا ہے کہ کس کے سر پر کامیابی کا تاج پہنانا ہے۔
دونوں سیاسی جماعتوں کے آمنے سامنے آنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ملک میں دو جماعتی نظام ہی مستحکم ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جگہ بلاشبہ پی ٹی آئی نے لے لی ہے۔ قبل ازیں 1988 میں ملک میں پہلے جماعتی الیکشن ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ 1988 اور 1990 میں آئی جے آئی میں شامل اور 1993 سے براہ راست پیپلز پارٹی کے مدمقابل رہی۔ دو مرتبہ 1988 اور 1993 میں بی بی بے نظیر نے میدان مارا اور دو مرتبہ 1990 اور 1997 میں میاں نواز شریف نے 2008 میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ ن کے قدم کامیابی نے چومے تاہم اب مقابلہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں ہے۔ پیپلز پارٹی لاکھ دعوے کرے لیکن وہ سندھ کی سب سے بڑی پارٹی ضرور ہے۔ باقی صوبوں میں اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔
مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں زیادہ شور شرابہ دیکھنے کو ملا۔ دراصل پاکستان میں جس طرح جمہوریت آئیڈیل نہیں ہے اسی طرح آئیڈیل سیاسی جماعتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ ٹکٹوں کی لاہور میں تقسیم کے معاملے کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی بورڈ اپنی اپنی جگہ ہیں لیکن یہاں مسلم لیگ ن کے فیصلوں میں مرکزی کردار میاں حمزہ شہباز جبکہ پی ٹی آئی میں مرکزی کردار عبدالعلیم خان کو حاصل رہا ہے۔ پہلے ہم مسلم لیگ ن کے معاملے کو لیتے ہیں۔
لاہور کے تین حلقوں سے بالخصوص امیدواروں کے حوالے سے چیخ و پکار سننے اور دیکھنے میں آئی۔ ان میں سب سے اہم قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 130 اور صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی پی 160 ہے۔ ان دونوں حلقوں سے مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی کے امیدوار خواجہ احمد حسان اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار سید توصیف شاہ الیکشن 2013ء میں بالترتیب پی ٹی آئی کے شفقت محمود اور میاں محمود الرشید سے شکست کھا گئے تھے۔ یہ حلقہ انتخاب 1990ء سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ کہلاتا تھا۔ اس شکست کی بنیادی وجہ امیدواروں اور مقامی قیادت میں تال میل نہ ہونا تھا۔ سید توصیف شاہ مسلم لیگ (ن) لاہور کے چیف آرگنائزر اور میاں حمزہ شہباز کے پولیٹیکل سیکرٹری ہیں۔ اس پبلک افیئرز یونٹ کے ممبر بھی ہیں جس کے حمزہ شہباز چیئرمین ہیں۔
سید توصیف شاہ پنجاب بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں میاں حمزہ شہباز کی ٹیم کے کپتان کے طور پر حصہ لیتے رہے ہیں۔ ان کا کام ضمنی الیکشن والے علاقے میں متحارب گروپوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر الیکشن لڑوانا رہا ہے لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ الیکشن 2013ء کی شکست کے باوجود پچھلے پانچ سال میں اپنے صوبائی حلقے میں مقامی قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر نہیں کیے۔
علامہ اقبال ٹائون کی یونین کونسلوں کے چیئرمین ملک خالد کھوکھر، طاہر سندھو ایڈووکیٹ ، رانا اختر محمود، مہر شبیر ہیرو، چیئرمین اشفاق سیٹھ جبکہ وائس چیئرمین خواجہ سعد فرخ، مہر راشد لیاقت، چودھری مجید عالم، ملک عابد ارائیں سمیت عطااللہ بٹ، تاجر رہنما احد شیخ چیئرمین کریم بلاک مارکیٹ سب مسلم لیگی ہیں اور اُن کا ا یک ہی مطالبہ ہے کہ میاں حمزہ شہباز اُن کو اور خواجہ احمد حسان سمیت سید توصیف شاہ کو بلا لیں اور سب کو بٹھا کر فیصلہ کریں کہ آخر کیا مجبوری ہے کہ توصیف شاہ کو پی پی پی 160 سے امیدوار لایا جائے حالانکہ اس کے آنے سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں ہار جائیں گی۔ بہرحال پھر بھی حمزہ شہباز کا سید توصیف شاہ کے حق میں فیصلہ آئے تو ساری مقامی قیادت پارٹی امیدواروں کا الیکشن اپنا سمجھ کر لڑے گی۔
میاں حمزہ شہباز تک مسلم لیگ (ن) لاہور کے جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر کے ذریعے یہ پیغام جا چکا ہے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ ملک ریاض اور غزالی سلیم بٹ کے درمیان پارٹی قیادت نے صلح کروا دی ہے جبکہ پرویز ملک، بلال یٰسین تنازع بھی لگ بھگ اختتام کو پہنچ گیا ہے اور بلال یٰسین اسی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ پرویز ملک ایم این اے اور بلال یٰسین صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ البتہ سید زعیم حسین قادری اور چودھری عبدالغفور کی راہیں شریف فیملی سے جدا ہو گئی ہیں۔
جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے اُن کے سابق صدر لاہور ولید اقبال اور اُن کے ساتھیوں کو اختلاف رکھنے کا عبدالعلیم خان نے اچھا خاصا سبق سکھایا ہے، نہ صرف ولید اقبال ٹکٹ سے محروم رہے ہیں بلکہ اُن کی ٹیم میں شیخ امتیاز اور سعدیہ سہیل جیسے لوگ بھی ٹکٹ حاصل نہیں کر سکے۔
ولید اقبال نے باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر ہونے والی ناانصافی پر احتجاج کیا اور کہا ہمارے کارکنوں کا استحصال ہوا۔ انہوں نے چیئرمین عمران خان کو فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی اپیل کی جبکہ پارٹی کے مرکزی رہنما حامد خان نے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے عبدالعلیم خان پر الزامات عائد کئے۔
اُدھر ٹکٹوں ہی کے حوالے سے مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی شکر رنجی بھی سامنے آ چکی ہے ان تمام معاملات سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لا کر ہی ملک میں آئیڈیل جمہوریت لائی جا سکتی ہے۔