انتخاب 2018 آج Talk of townہی نہیں Talk of global villageبن کے ہیں۔ ہر سطح پر انہیں ڈسکس کیا جارہاہے۔گزشتہ روز نوائے وقت آفس میں مرشد صحافت محترم مجید نظامی مرحوم کی جاں نشین اور نوائے وقت گروپ آف پبلیکیشنز کی ایم ڈی محترمہ رمیزہ نظامی سے ملاقات ہوئی۔ وہ بھی انتخابات کے حوالے سے اپنے نکتہ¿ نظر کا اظہار کررہی تھیں انہوںنے بڑی وژنری بات کی کہ الیکشن تو ہوچکے ہیں اب صرف ووٹنگ باقی ہے۔ ووٹنگ تک بہرحال انتخابی مراحل طے ہونے ہیں۔ الیکشن شیڈول پر عمل جاری ہے۔کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔ پارٹیوں نے امیدوار میدان میں انتخابی معرکہ لڑنے کیلئے اتار دیئے ہیں۔ ایک معرکہ امیدوارمخالف امیدواروں کیخلاف لڑرہے ہیں تو ایک یُدھ ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹیوں کے اندر بھی جاری ہے۔مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی قیادتوں کوٹکٹوں کی تقسیم پر زیادہ اعتراضات اور تحفظات کا سامنا ہے۔ایسا ان ممالک میں کم ہی ہوتا ہے جن ممالک میں جمہوریت پختہ ہوچکی ہے۔
زندگی میں 60ستر سال کوئی طویل عرصہ نہیں ہوتا مگر یہ مدت اتنی بھی کم نہیں کہ سسٹم developنہ ہو سکے۔ جمہوری روایات پختہ نہ ہو سکیں مگر ہمارے ہاں ابتدائی ساٹھ سال میں سے آدھا سے زیادہ عرصہ آمریت کی نذرہو گیا۔ اس لئے جمہوریت مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو سکی۔ اب تک یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ جمہوریت پنپنے لگتی ہے تو فوجی آمریت کے شب خون کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ جمہوریت کو ڈی ٹریک کرنے اور آمریت کی راہ ہموار کرنے میں ہمارے سیاستدان کتنے قصور وار ہیں۔ وہ جتنے بھی قصور وار ہوں کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ڈیموکریسی کا خون کرکے قومی و عوامی امنگو ںسے کھلواڑ کرے۔
مشرف کی نو سالہ آمریت کے بعد ہم ایک بار پھر جمہوریت کے نئے فیز کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب کے جمہوریت کی طرف سفر بھلے دھیرے دھیرے جاری ہے مگر یہ حوصلہ افزا ہے، جہاں کچھ بھی آئیڈیل ہونا مشکل ہے۔ جمہوریت بھی ہمارے ہاں آئیڈیل نہیں مگر جیسی بھی ہے اسے بہترین آمریت سے بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔آمریت کی حبس میں آپ کا دم گھٹتا ہے، بری سے بری جمہوریت بھی ٹھنڈے ہواکے جھونکے سے کم نہیں۔ ہمارے ہاں بدستور جمہوریت میں آمریت کی آمیزش موجود ہے۔ پی پی پی دور کو بری جمہوریت کی مثال قرار دیا جا سکتا ہے مگر وہ مشرف آمریت سے بدرجہا بہتر تھی کم از کم فرد واحد تو سیاہ و سفید کا مالک نہیں تھا۔ پی پی پی دور کے بعد مسلم لیگ (ن) کا جمہوری دور بدرجہ بہتر تھا۔ آنیوالا دور یقیناً اس سے بھی بہتر ہوگا۔ پے در پے انتخابات ہوتے رہے تو جمہوریت مضبوط تر ہوتی رہے گی۔ ایک دور ایسا آئیگا کہ جمہوریت سے آمریت کی آمیزش مطلق ختم ہو جائے گی اور یہی دور خالص اور مضبوط جمہوریت کا ہوگا۔ اس دور کے ثمرات قوم و ملک تک اسی طور پہنچ سکتے ہیں کہ آمریت کو اپنا آپ دکھانے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ امید فعال عدلیہ کیساتھ وابستہ کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں جب بھی آمرانہ مہم جوئی کی گئی عدالتوں کا کندھا استعمال ہوا۔ اب سر دست ایسا کوئی خطرہ اور خدشہ موجود نہیں ہے۔ آج جمہوری روایات بہتر ہو رہی ہیں۔ ماضی میں نگران حکومت کا تصور نہیں تھا۔ بھٹو صاحب نے 77میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران انتخابات کرائے جو خوف کی علامت بن گئے اور ان انتخابات کے دھاندلی سے لتھڑے نتائج بہترین اور عظیم ترین لیڈر کو پھانسی کے پھندے تک لے گئے۔ جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے دوران میاں نوازشریف کی سیاست کا ایکسپوژر ہوا، جنرل ضیاءنے اپنی ہی قائم کردہ نیم جمہوری حکومت کا گلا دبایا اور محمد خان جونیجو کو گھر بھجوایا تو میاں نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے انہی کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کردیا گیا مگر جنرل ضیاءالحق نئی حکومت کی تشکیل سے قبل اللہ کو پیارے ہو گئے تو انتخابات کے نتیجے میں بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں۔ ان کی حکومت توڑی گئی تو ان کے بدترین سیاسی حریف غلام مصطفیٰ جتوئی جو فوج کی تشکیل کردہ آئی جے آئی کے صدر تھے کو نگران وزیراعظم بنا دیا گیا۔ ایسے میں منصفانہ انتخابات کی توقع کیسے کی جا سکتی تھی۔ آج حالات بہت مختلف اور کافی بہتر ہیں ۔ گو کچھ نگران وزراءکی غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں مگر کسی سے کھل کر کسی سیاسی پارٹی کی طرفداری کرنے کا اندیشہ نہیں ہے مگر نگرانوں کے اقدامات اور کارکردگی کا تجزیہ ضرور کرنا ہوگا۔
انتخابات میں شفافیت کیلئے نگران حکومتیں کسی بھی حد تک قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جا سکتی ہیںمگر آج کے نگران کئی حوالوں سے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے نظر آتے ہیں۔نگران وزیرداخلہ اعظم خان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے عمران خان کے دوست زلفی کو انکے ساتھ عمرے پر جانے کی اجازت دیدی جن کا نام بلیک لسٹ میں شامل تھا۔نگران حکومت نے چند ہفتوں میں بارہ ارب قرضہ لے لیا۔دو ہفتے میں ریکارڈ کرنسی نوٹ چھاپ دیئے۔ ان کی طرف سے بیورو کریسی میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ بچھاڑ کی گئی ہے، اٹارنی جنرل ، ڈپٹی اٹارنی جنرل، آئی جیز، چیف سیکرٹریز اور دیگر بہت سے عہدیدار اور بیورو کریٹس تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ بات تھانیداروں کے تقرر و تبادلے تک بھی آ گئی۔سیکڑوں کی اکھاڑ پچھاڑ کردی۔ ایسا کچھ بلا ضرورت کیا گیا ہے ۔کوئی پارٹی کسی بھی بیورو کریسی اور عام سرکاری عملے کی جانبداری کا سوال اٹھاتی ہے تو الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں ایکشن میں آ جاتی ہیں۔ یہ بیورو کریٹس کی دیانت پر شبہ کا اظہار ہے۔ اب تو الیکشن کمشن انتخابی عمل کو منصفانہ بنانے کیلئے وزارت دفاع سے ساڑھے تین لاکھ فوجی حکام اور اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو چکا ہے۔ ایسا اعتماد سول بیورو کریسی پر کیوں نہیں کیا جا سکتا؟۔ بلاشبہ یہ پاکستانی ہیں اور کسی بھی طبقے اور حلقے کے لوگوں سے کم محب وطن نہیں۔ اگر کوئی بے ضابطگی کرتا ہے تو مستوجب سزا ہے۔چلیں یہ بھی ان حالات میں قابل قبول ہو سکتا ہے کہ ہم جمہوریت کی مضبوطی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق رائج ہوگی تو نگران حکومتوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔امریکہ برطانیہ کی طرح اپنی مدت پوری کرنےوالی حکومت ہیں نگران کے فرائض انجام دیتی نظر آئے گی۔اب مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے مابین انتخابی معرکہ آرائی ہونے کو ہے۔دونوں نے اپنی دانست میں بہترین امیدوار سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ایک طرف شہباز شریف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو لیڈ کررہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان انتخابی میدان مارنے کے دعوووں کے ساتھ موجود ہیں۔شہباز شریف کو اب میاں نواز شریف اور مریم نواز کی لندن موجودگی کے باعث انتخابی معاملات دیکھنے اور نمٹانے کا موقع ملاہے ،وہ بہترین طریقے سے معاملات نمٹا رہے ہیں۔ان کی پنجاب میںکارکردگی انتخابات میں کامیابی کی ضمانت ہے۔عید کے بعد ملک میں لوڈشیڈنگ کا نام و نشان بھی نہیں ہے ۔یہ مسلم لیگ ن کا معمولی کارنامہ نہیں ہے،اس میں سب سے زیادہ حصہ شہبازشریف کی سربراہی میں پنجاب حکومت کا ہے،اسی لئے ممکنہ انتخابی نتائج کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے’الیکشن ہوچکے ہیں،صرف رسمی ووٹنگ باقی ہے جو 25جولائی کو ہوگی۔ علم الاعداد کی روشنی میں چودھری نثار کے مقابلے میں چودھری سرور کی کامیابی یقینی نظر آ رہی ہے۔