ہمارے بڑے ہی محترم اور میرے محسن سعید آسی کی کتاب میرے سامنے ہے ۔ کتاب کے عنوان ’’ تیری بکل دے وچ چور سے ‘‘ مجھے لگا کہ شاید یہ کوئی پنجابی رومانوی افسانہ یا ڈرامہ ہے کیونکہ آسی صاحب صرف حالات حاضرہ یا تاریخ کے قدرداران نہیں بلکہ بیک وقت ادب کے بھی پیروکار ہیں ۔ وہ اب تک چھ کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں انکی پنجابی شاعری کے دو مجموعے ’’سورج سمندر ‘‘ اور’’ رمزاں‘‘اردو شاعری کا ایک مجموعہ ’’تیرے دکھ بھی میرے دکھ میں ‘‘دو سفر نامے ’’آگے موڑ جدائی کا تھا ‘‘اور جزیرہ جزیرہ ‘‘اور انکی ساتوں کتاب ’’ تیری بُکل دے وچ چور جو اس وقت میں لکھے جانے والے کالموں کا مجموعہ ہے مگر اس کی منفرد بات یہ ہے کہ یہ آپ کو ایک Decadeکی یاد تازہ کر دیتی ہے ۔ اور کالموں کے عنوان پڑھنے میں اور دلچسپی پیدا کر دیتے ہیں ۔ جیسے میں نے پہلے لکھا کتاب کا عنوان ’’ تیری بُکل دے وچ چور ‘‘ کوئی پنجابی گیٹ نہیں بلکہ امریکی پالیسی کے تسلسل اور تباہی سے نتائج کا ذمہ دار ہونے کا تصور ہے ۔
کتاب کے صفحہ نمبر 207میں ’’ وہی قتل کرے ، لے وہی ثواب الٹا ‘‘کے عنوان سے تحریر ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ کس طرح افغان جہادعراق وار اور دنیا بھر میں دہشت گردہ اور تباہی کا ذمہ دار امریکہ ہے اور گاہے بگاہے اس کے اپنے لوگ اعتراف بھی کرتے رہے ہیں مگر امریکہ اپنی پالیسیوں کو ری وزٹ کرنے کی بجائے دوسروں کو اقوام عالم میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتا ہے ۔ مگر ہماری قیادتیں ، امریکہ کو سمجھا نہیں پا رہیں کہ ’’ تیری بُکل دے وچ چور ‘‘۔
اس کتاب میں ماضی کی سازشی تھیوریوں کو پڑھ کر بھی آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمارا حافظہ کمزور ہے ہم پچھلے واقعات کو جلد بھول جاتے ہیں مگر ان کالموں میں لکھے گئے تاریخ کے وہ واقعات جو غلط فہمی میں ہوئے یا پھر جان بوجھ کر سب ہی قلم بند ہیں۔ میں جب صفحہ نمبر 63پر دیا گیا کالم پڑھ رہی ہوں تو مجھے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا دھرنا یاد آ گیا ہے ۔ جب ایسا لگ رہا تھا کہ بس اب نواز شریف کی حکومت کو ئی نہیں بچا سکتا مگر افسوس اسی بات کا کہ اُس دھرنے کے نتیجے میں اقتصادی طور پر ہم کمزور ہوئے۔ ایک بڑے دلچسپ جملے پر میری نظر پڑی ہے جس میں آسی صاحب دھرنے کے تسلسل میں ہی لکھتے ہیں کہ’’ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کینڈین شہریت سے دستر بردار ہو جائیں تو میں خود کو ان کے مریدین میں شامل کر لوں گا‘‘ مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے ڈاکٹر طاہر القادری تو آج تو بھی کینیڈا کے شہری ہیں ۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی قسمت ہے کہ انھوں نے شہریت نہیں چھوڑی ورنہ آسی صاحب بھی آج کسی دھرنے کی تیاری میں ہوتے جو خود جمہوریت کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں اور آج بھی ان کی کتاب پڑھیں تو وہ سسٹم کو بچانے اور تبدیلی سسٹم میں رہ کر لانے کے قائل ہیں ۔
سعید آسی صاحب جیسے صاحب علم اور دور اندیش شخص صدیوں میں ہی پیدا ہوتے ہیں یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اُن کے نہ صرف علم سے بلکہ ان کے ادب سے بھی فیاض پایا۔ اور دعا کرتے ہیں کہ ان کا قلمی سفر جاری و ساری رہے ۔