سیاستدانوں نے اپنے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر کبھی ملک کی بقاءکے نام پر اور کبھی ملک کی سلامتی کے نام پراس ملک کے اس مالکوں یعنی عوام کو طرح طرح سے تنگ کیا اور ان کے تمام حقوق چھین لئے،انتہاءیہا ں تک پہنچی کہ وہ بنیادی حقوق جو انگریز آقا نے اپنے غلاموں کو دے رکھے تھے ان کالے صاحبوں نے وہ بھی چھین لئے اور سب کو بے دست وپا کر کے رکھ دیا۔قائداعظمؒ کا وژن پہلے سات سال کے بعد ایک جنرل (ایوب خان )اور ماہر معاشیات(غلام محمد)کی حرص اور کوتاہ اندیشی سے برباد ہونا شروع ہو گیا تھا اور پھر ان کے جانشینوں چاہے وہ فوجی تھے یا سویلین ،کے ہاتھوں مزید بربادیوں کی منزلیں طے کر رہا تھا کہ ہم غیروں کے محتاج بن گئے ۔ملک بھی دولخت کر بیٹھے۔
انتخابات کے دہانے پر کھڑی قوم اقتدار کے لئے اپنی سیاسی تاریخ سے مستفید ہو کر ہی بہترین قیادت کا فیصلہ کر سکتی ہے ۔ہمیشہ کی طرح عوام کو احتساب کرنے کے حق سے محروم کر کے،خود احتسابی نعرہ ایک بار پھر انتخابات سے پہلے لگایا گیا ہے ۔یاد رہے کہ جنرل ضیاءالحق نے انتخابات سے پہلے احتساب کا نعرہ لگا کر ہر شریف آدمی کا ناطقہ بند کر دیا اور جو بھی سامنے آتا اس کو حیلوں بہانوں سے پھانس لیا جاتا ۔مگر قابو آیا ہوا شخص اگرتابعداری اور فرمابرداری کی حامی بھر لیتا تواس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے بلکہ وہ اس کی مجلس شوریٰ کا ممبر بن جاتا ۔اس زمانے میں ضمیر فروشی اور منافقت کا سب سے زیادہ مفید سکہ رائج تھا۔ایمان فروشی و دین فروشی فیشن بنے۔بیت المال اور زکوة کے نام علما خریدے گئے۔میڈیا پر سنسر کی تلوار لہرائی گئی اور ہر طرف سے سب اچھا اورامن کی شہنائی سنائی دی۔کلاشنکوف اور ہیروئن نے جرم کے تمام انداز ہی بدل دیئے۔پاکستانی معاشرہ کو اس کی کتنی قیمت ادا کرنی پڑی اور کرنی پڑ رہی ہے اس کااندازہ آپ کر ہی نہیں سکتے۔
ہائے ری ہوس اقتدار کہ کیا کیا تجھے نشاط ہے
بربادی تیری خوارک ہے اور تباہی تاجدار ہے
دنیا بھر میں یہ طریقہ موجود ہے کہ احتساب کا بے رحم نظام ہمیشہ متحرک رہتا اور ظالموں اور ظلم کے رستوں کو بند کرتا ہے مگر ہمارے ہاں انتخابات سے قبل یہ نعرہ بلند کر دیا جاتا تاکہ سادہ لوح عوام کو یہ بآور کرایا جاسکے کہ اس بار صادق اور امین ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں گے۔
2018ءمیںبھی حالات قدرے مختلف نہیں ،الیکشن ، سلیکشن کی صورت اختیار کرگیا ہے۔سیاسی جماعتیں عوام کی بجائے اداروں کے مفادات پر کام کررہی ہیں۔حد تو یہ ہے کہ کسی بھی حلقہ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے ووٹر کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی پسند کے امیدوار کو انتخابات کے لئے اہل قرار دے۔قیادتیں اپنے مفاد اور پسند، ناپسند پر امیدواروں کو سامنے لائی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت میں ٹکٹوں کی تقسیم پر شوربرپا ہے دوسری جانب الیکشن کمیشن میں اعتراضات کی تعداد کاغذات نامزدگی سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ امیدواروں کو ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے کا موقعہ مل گیا۔ بظاہر انتخابی عمل کی شفافیت بھرپور ہے مگر ظاہری اقدامات سے محض اصل حقائق چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کارستانی کا مقصد ان انتخابی اصلاحات پر مکمل عملدرآمد ہے جو پارلیمانی جماعتوں نے اپنے مفادات کے لئے منظور کیں۔ انتخابی عمل پر ایک بھی اعتراض نہیں،جبکہ امیدواروں کے ایک دوسرے کے لئے محاذ کھلے ہیں، حالانکہ انتخابی عمل کی شفافیت ہی کسی کو یہ موقعہ نہ فراہم کرتی کہ ایک دوسرے کے خلاف اعتراضات کی ضرورت باقی رہتی۔خدمت نہیں اقتدار کی دوڑہے۔ جماعت سے وفاداری اور بے وفائی کا سب سے بہترین موسم انتخابات کا ہے جب ہر کارکن امیدوار بن جاتا ہے اور اقتدار کے مزے لینے کی خاطر ہرجائی بن جاتا ہے ۔کہیں عوامی خدمت یا مملکت سے وفاداری کی ضرورت پیش نہیں آتی ،بغیر منتخب ہوئے کوئی بھی ملک و قوم کے لئے وقف ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
سارے انتخابی عمل میں عوام کہیں بھی نظر نہیں آتے، وہ انتخابات جو عوام کے لئے ہی کرائے جاتے ہیں، اس انتخابی عمل میں عوام محض،انتخاب کے دن ہی نظر آتے ہیں،باقی انتخابی عمل”مخصوص اداروں“کے مرہون منت ہوتا ہے۔جسے مکمل ہونے پر سیاسی جماعتوں کے قبول کرنے یا نہ کرنے سے مشروط رکھا جاتا ہے۔دلفریب نعروں میں مست عوام تب بھی یہ اختیار نہیں رکھتے کہ اپنے ووٹ کی عزت و حرمت بچا سکیں۔حصول اقتدار کے نشے میں بدمست سیاستدانوں کے چہرے انتخابات میں بے نقاب ہوتے ہیں ۔ان کی وابستگیاں، انا پرستیاں اور قلابازیاں کھل کرسامنے آجاتی ہیں۔کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ نظام عوام کے لئے ہے اور عوام سے ہی بنتا ہے ۔عوامی توقعات پوری نہ ہوں تو صرف اور صرف عوام کو ہی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ قیادت کا احتساب کریں ۔ ابھی وقت ہے سیاستدانوں کے علاوہ کچھ خاموش آوازیں میدان عمل میں اتریں اور قوم کی رہنمائی کریں ملک کو پیچھے گھسیٹنے کی بجائے آگے کی طرف لے کر چلیں۔یاد رہے جمہوری عمل ہی اس ملک کی بقاءکی ضامن ہے۔جمہوریت کے چاند کو گرہن نہیں لگنا چاہئے۔
ہائے رے ہوسِ اقتدار کیا کیا تجھے نشاط ہے
Jun 26, 2018