2019ء میں بھی دنیا پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں، دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر ملک کے بجٹ کا زیادہ تر حصہ افواج اور اسلحہ پر خرچ ہو رہا ہے۔ نت نئے، جدیت ترین ہتھیار اور میزائل روزانہ ایجاد ہو رہے ہیں۔ دنیا کے پاس اس وقت اتنا اسلحہ موجود ہے کہ وہ کرہِ ارض کو کئی بار فنا کر سکتا ہے۔ کیا نئی نسل اس تباہ کن ممکنہ جنگ کے لیے تیار ہے۔
485 قبل مسیح میں رومن اور پرشین دو بڑی ایمپائرز تھیں۔زیروز اول ساٹھ ہزار سپاہی لے کر یونان پر چڑھ دوڑا جس کا بدلہ مقدونیہ کے الیگزینڈر نے پرشین ایمپائر کو تباہ کر کے لیا۔ اس کے بعد پندرہ سو سال تک دنیا میں رومن ایمپائر کا ڈنکا بجتا رہا۔ ان کے پاس اس وقت کی جدید فوج اور ہتھیار تھے۔ دنیا رومنوں کے سامنے بے بس نظر آتی تھی۔ پھر اسلامی خلافت کا زمانہ آیا جو انیسویں صدی میں عثمانی ترکوں اور خلافتِ عثمانیہ کیزوال پر منتج ہوا۔ برصغیر میں مغلوں نے اپنے گھڑسوار دستوں اور توپوں کی برتری کی بناء پر برصغیر پر قبضہ کر لیا۔ جنگ عظیم اول میں ترک خلافتِ عثمانیہ کوجرمنی کاساتھ دینے کی سزا کے طور پر انگریزوں نے سلطان عبدالحمید کو معزول کرکے ماٹا بھیج دیا اور یوں اسلامک ایمپائر کا ایک باب ختم ہوا۔ جنگِ عظیم دوم میں کامیابی کے بعد امریکہ ایک سپرپاور بن کر ابھرا جس کے پاس سب سے طاقت ور فوج اور جدید ترین اسلحہ جات تھے۔ 1945ء کے بعد سرد جنگ کا زمانہ شروع ہوا جس میں امریکہ اور روس دو سپرپاورز بن کر ابھرے، جن کے ساتھ دنیا نیٹوا لائنس اور وارسا پِکٹ ممالک میں تقسیم ہو گئی۔ جہاں تک ایجادات کی بات ہے اس وقت کی تمام تر ایٹمی اور الیکٹرونک ایجادات حالتِ جنگ میں ہوئیں۔ موبائل فونز میں استعمال ہونے والی مائیکرو چپس امریکی سائنسدانوں نے ایٹمی میزائلوں کا قبلہ درست رکھنے کے لیے سرد جنگ کے زمانے میں ایجاد کیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ اور خلاء سے کنٹرول کیے جانے والے سیٹلائٹ بھی حالتِ جنگ کا شاخسانہ ہیں۔ نیوکلیائی ٹیکنالوجی جو بجلی بنانے کے کام آتی ہے، وہ بھی جنگ کے زمانے میں ایجاد ہوئی۔ نیوکلیائی فیشن اور فیوژن جو جدید ترین مشینری کا حصہ ہیں حالتِ جنگ کی پیداوار ہیں۔ خلاء میں چھوڑے جانے والے راکٹ جو دوسرے سیاروں کی خبریں لاتے ہیں وہ بھی ایٹمی میزائلوں کی صورت میں پہلے پہل ایجاد کئے گئے تھے۔ کیمیائی اور نامیاتی گیسیں جو 2018ء میں شام میں استعمال ہوئیں وہ بھی کسی نہ کسی جنگ کے دوران ایجاد کی گئیں۔ جنگ جو کبھی جنگی چالوں اور عددی برتری سے جیتی جاتی تھی اب ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے۔ عراق پر حملہ آور ہونے والے سٹیلتھ طیارے جو ریڈار پر نظر نہیں آتے، جب عراق پر بمباری کرتے تھے تو عراقی ان کے سامنے بے بس نظر آتے تھے۔ دوسری طرف مضبوط اقتصادیات جو کہ امریکہ برطانیہ فرانس کے پاس ہیں، اب ان میں چین بھی شامل ہو چکا ہے۔ آئندہ آنے والی جنگیں اقتصادی مضبوطی اور جدید ٹیکنالوجی کے زور پر جیتی جائیں گی۔ ایک جائزے کے مطابق اس کرہِ ارض کی بیس فیصد آبادی اسی فیصد آبادی کے ذرائع پر اپنا کنٹرول رکھتی ہے۔ ایک طرف غریب ممالک ہیں جہاں روزانہ بھوک سے لوگ مر جاتے ہیں اور ایک طرف امریکی اپنی فاضل گندم جہازوں میں بھر کر سمندر برد کر دیتے ہیں۔ روس کے صدر پیوٹن جب اپنے ملک کو قرضوں سے چھٹکارا نہ دلا سکے تو انہوں نے اپنی فوجیں بشارالاسد کی مدد کے لیے شام میں جھونک دیں۔ یمن میں ہوسی قبائل خطِ غربت سے نیچے رہنے پر مجبور ہیں دوسری طرف تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی اتحادی افواج نے ان کے شہر کے شہر ملیامیٹ کر دئیے ہیں۔ امریکہ نے چین کا 3000 ٹریلین ڈالرز قرضہ دینا ہے جبکہ دوسری طرف سائوتھ چائنہ سمندر میں چین اور امریکہ کے جنگی جہاز آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ بحرالکاہل میں برتری کی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اب امریکہ اور ایران کے درمیان روزافزوں کشیدگی کے باعث آبنائے ہرمز خلیج فارس بھی کسی وقت جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ امریکہ ایران پر حملے کی تیاری کر چکا ہے۔ ایران نے بھی جوابی کارروائی کی دھمکی دیدی ہے۔ امریکہ کے پاس ساری دنیا کی برآمدات کا پچیس فیصد مال موجود ہے۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ چین سے لے کر کوریا تک افغانستان، عراق ، شام عرب ممالک تک ہر جگہ امریکہ کی فوجیں یا تو جنگ میں شریک ہیں یاجنگ کے یے تیار ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کا قرضہ اتارنے کے لیے چینی اشیاء کی درآمد پر بے تحاشا ٹیکس لگا دئیے ہیں۔ اگر چین اپنی بے تحاشا آبادی کو خوراک اور ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ان دو بڑی اقتصادی اور نیوکلیائی جنگی قوتوں کے درمیان کہیں بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی اور اگر اب کی بار کرہِ ارض تیسری جنگِ عظیم جو کہ یقیناً نیوکلیائی ہوگی، میں مبتلا ہوتی ہے تو اب کی بار کچھ نہیں بچے گا۔ اول و آخر فنا…
(مضمون نگارجناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)