اپنی کرکٹ ٹیم کی ابتدائی میچوں میں پرفارمنس کے بعد ملک میں کرکٹ کے جنون میں کمی آئی ہے اور اگر یہ پرفارمنس جاری رہی جس کی گرائونڈ میں جمائیاں لے کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ایک منفرد اعزاز اپنے نام کرنیوالے کپتان سرفراز احمد کی کپتانی میں منتشر پاکستانی ٹیم سے بہت توقع ہے تو کرکٹ کا جذبہ پہلے دلچسپی میں اور پھر بے نیازی میں بدل جائیگا۔ مجھے کرکٹ کی اس سے بھی کم سمجھ ہے جتنی ٹیلی ویژن کی سکرین پر میچ دیکھ کر کبھی بلے کو ہاتھ نہ لگانے والے پاکستانی وسیم اکرم جیسے بائولر اور جاوید میانداد ایسے بیٹسمین کو مشورے دیتے ہیں اپنا مشورہ نہ ماننے پر انہیں برا بھلا کہتے ہیں مگرمجھے اللہ کے اس قانون کا پتہ ہے کہ تکبر کی سزا ضرور ملتی ہے اس کیلئے یہی کہا گیا ہے۔
تکبر عزازیل را خوار کرد…بذندانِ لعنت گرفتار کرد
ہماری کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں میں تھوڑی سی پرفارمنس کے بعد تکبر کا آ جانا اور اپنی حماقت پر ڈٹ جانا۔ اللہ کی مدد اور مہربانی کو اپنی کاریگری اور ہنرمندی سمجھنا ایسی بری عادت ہے جس میں ہمارے کھلاڑی باقی ملکوں کے مقابلے میں جلد گرفتار ہو جاتے ہیں۔ انڈیا میں کھیلا جانیوالا وہ میچ جس میں اوپنر عامر جم کر کھیل رہا تھا ایک دو چوکے لگانے کے بعد بائولر کو تکبر سے اشارہ کرتا ہے بال پھینکو پھر چوکا لگائوں گا اور پھر اسی بال پر آئوٹ ہو جاتا ہے۔ بھارت کے تین چار بلے باز دس ہزار رنز سے زیادہ سکور کر چکے ہیں مگر کبھی کسی نے اس طرح کی چھچھوری حرکت نہیں کی۔ بھارت کے ساتھ میچ میں دونوں جانب جذبات اُبھارنے والے پاگل پن کی ساری حدیں کراس کر جاتے ہیں اور چینلوں کی بھرمار سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ اسکے باوجود ہوشمندی سے فیصلے کرنے کے مشورے بھی دئیے جاتے ہیں۔ مانچسٹر میں ورلڈ کپ کے 16 جون کو ہونے والے میچ سے پہلے وزیر اعظم عمران خاں کا مشورہ کہ ٹاس جیت کر پاکستانی ٹیم کو پہلے بیٹنگ کرنا چاہئے کسی وزیر اعظم کا مشورہ نہیں تھا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان کا مشورہ تھا اور وہیں گرائونڈ میں موجود پاکستان کے دوسرے کامیاب کپتان یا کم از کم بہترین بائولر اور ورلڈ کپ کے کئی میچوں کے پریشر کا تجربہ رکھنے والے وسیم اکرم نے مانچسٹر میں سرفراز کو یہی مشورہ دیا کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنا کیونکہ وسیم نے کپتان کی وہ ساری غلطیاں جو سرفراز نے آسٹریلیا کیخلاف کر کے جیتا ہوا میچ ہروا دیا تھا اور اپنی آخری حماقت سے دسویں نمبر پر آنیوالے آفریدی کو ایک رنز دیکر پورا اوور کھیلنے کیلئے سامنے لاکھڑا کیا تھا اور اسی اوور میں یہ میچ ختم ہو گیا تھا۔ وسیم اکرم کے یہ سب کچھ سامنے ہوا۔ اچھا بیٹسمین تو ایسے موقع پر سنگل نہ لینے اور اچھا بائولر سنگل دیکر ٹل اینڈر کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے اگر سرفراز یہ حماقت نہ کرتا اور خود ہی سارے اوور کھیلتا آخری گیند پر سنگل لیکر پھر سامنے آنے کی وسیم اکرم اور ثقلین مشتاق کی روایت کو سامنے رکھتا تو یہ میچ جیت جاتا۔ بھارت سے ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کا عمران خاں اور وسیم اکرم کا مشورہ مان لیتا تو بھی بھارت سے اتنی ذلت سے ہارنے سے بچا جا سکتا تھا۔
بہرحال مجھے یہ سب انگلستان کی سمرسیٹ کائونٹی ٹیوٹن کے خوبصورت سٹیڈیم میں بہت ہی تہذیب یافتہ ماحول میں پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین میچ دیکھنے پر یاد آ گیا۔ یہ میچ دیکھنے کا پروگرام لندن روانگی سے پہلے ہی طے پا چکا تھا۔ اس کیلئے ٹکٹ حاصل کر کے ہی ہم آٹھ جون کو ہیتھرو ائیر پورٹ پر اُترے تھے۔ ایک دن لندن میں قیام کے بعد ایڈنبرا چلے گئے ابھی تک میرے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد سراج نے اپنے بیٹے محمد عمر راشد کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم یہ میچ دیکھیں گے اسے کرکٹ کے بارے میں جتنی انفارمیشن مختلف ملکوں کے کھلاڑیوں ان کی کارکردگی انکے پیشہ وارانہ کمزوریوں اور انکی فنی خوبیوں کی معلومات ہیں شاید پروفیشنل کرکٹر کے پاس بھی نہ ہوں اسی لیے جب سمرسیٹ کائونٹی کرکٹ سٹیڈیم میں اسے کرکٹر کے انٹرویوز کرنیوالے بین الاقوامی شہرت کے حامل دو اینکرز سے ملنے کا موقع ملا تو میں نے کہا کہ ان کو اپنی اس خوبی سے آگاہ کرو ان سے گپ شپ میں یہ تھوڑا شرما گیا حالانکہ پاکستانی نژاد جرنلسٹ زینب عباس اور آسٹریلیا کے آل رائونڈر جیمز فالکنر دونوں نے اسے بہت محبت دی تصویریں بنوائیں اور اس کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
سٹیڈیم میں ہمارے پچھلی نشستوں پر آسٹریلوی اور برطانوی باشندے تھے جو میچ دیکھ کر اپنے مخصوص اندازمیں داد دیتے۔ لندن سے ٹیوٹن جانیوالی ٹرین کے فرسٹ کلاس کے ڈبے بھی آج اس طرح بھرے ہوئے تھے کہ ٹکٹ کائونٹر پر موجود ہر شخص گڈلک ٹویو کے ساتھ یہ ضرور بتا رہا تھا یا بتا رہی تھی کہ ریزرویشن نہیں کر رہے یعنی سیٹ الاٹ نہیں کر رہے جس سیٹ پر سبز بتی ہو گی وہ خالی سمجھی جائے اور جس پر سرخ بتی جل رہی ہو گی وہ ریزرو ہو گی مگر ہر مسافر کو نشست ملے گی جہاں نشستیں ختم ہونگی بکنگ بند کر دی جائیگی۔ ہمارے ساتھ کافی پاکستانی سوار تھے اور وہ بھی پوری تہذیب سے سفر کر رہے تھے۔ سٹیڈیم میں بس نہ لمبی لمبی قطاریں نہ دھکم پیل نہ ایک ایک ٹکٹ چیک کرنے پر ٹکٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھنے اور پھر ہر شخص کے سراپا کا جائزہ لینے‘ نہ بے صبرے لوگوں کی نعرے بازی بلکہ ٹیوٹن ریلوے اسٹیشن سے سٹیڈیم تک استقبال کرنے اور سٹیڈیم کا راستہ بتانے والی خواتین و حضرات کے چہروں پر مسکراہٹ ویلکم کرنے کا خوبصورت انداز ، رہنمائی کا معقول اور قابل فہم طریقہ اور نشستوں تک پہنچانے کی اہم ذمہ داری کو نبھانے کی مہارت۔ سارے ماحول کو بے پناہ خوشگوار بنا چکی تھی۔ پاکستانی بائولرز میں پروفیشنلزم کی بات کی جائے تو وہاب اور عامر نے اس سے لوگوں کے دل موہ لیے۔ عامر کی پانچ وکٹوں پر اُچھل کود کرنے کی بجائے سجدہ ریز ہونے پر ان کو سٹیڈیم میں بے پناہ ستائش ملی۔ فیلڈنگ میں ہمارے سٹینڈ کے دائیں جانب عامر اور بائیں جانب امام الحق نے جس عمدہ فیلڈنگ کا مظاہرہ کیا اس پر آصف کے دو آسان کیچ چھوڑ کر اپنی شکست ہی میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ ڈالنے کا غم بھی کرکٹ کے یہ شوقین بھلا چکے تھے حسن علی کے وکٹ لیکر تکبر سے اظہار کرنے کی عادت اسے نمبر ون بائولر سے چوبیسویں نمبر پر لے آئی تھی اور اسکی آج آسٹریلوی بلے بازوں نے خوب دھلائی کی مگر اس نے اپنی ناکام بائولنگ کا کفارہ کامیاب بیٹنگ سے ادا کیا ۔ دلیری سے چوکے چھکے لگائے۔ وہاب ریاض نے بھی بڑی دلیرانہ اننگ کھیلی اگرچہ کیچ چھوڑ کرناکامی کو یقینی بنانے والے آصف نے بطور بلے باز ناقص کارکردگی ظاہر کر کے وہ کفارہ ادا نہ کیا سب سے زیادہ تجربہ کار بلے باز شعیب ملک نہ آسٹریلوی بائولر کی ایک گیند کھیل سکا نہ ہی انڈین کی البتہ اُڑتی وکٹوں کو دیکھنے کیلئے وہ کریز پر ایسے کھڑا رہا جیسے اسے بولڈ ہونے کے اسرار و رموز پر ابھی کچھ کہنا ہے۔ ٹیم جس طرح ویسٹ انڈیز سے ہاری وہ شرمناک تھی جس طرح آسٹریلیا سے ہاری وہ حماقت تھی اور جس طرح بھارت سے ہاری وہ بزدلی اور بے اتفاقی کے علاوہ کپتان کے احمقانہ فیصلے تھے، اگر یہی کارکردگی رہی تو پاکستان میں کرکٹ کا بخار چڑھانے والے اینکروں کا مستقبل تاریک پر جائیگا۔