اسلام آباد، لاہور (وقائع نگار خصوصی، خصوصی نامہ نگار، نوائے وقت رپورٹ) جمعیت علما اسلام (ف) کی دعوت پر اپوزیشن جماعتوں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) آج منعقد ہو گی جس کی تمان تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ اے پی سی میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دے دی ہے۔ تمام جماعتوں نے ان کی دعوت قبول کر لی ہے تاہم جماعت اسلامی نے اے پی سی میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جماعت اسلامی کو اے پی سی میں شرکت پر آمادہ نہیں کر سکے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی زیر صدارت پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں میں اے پی سی میں مسلم لیگ ن کا 10 رکنی وفد شرکت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وفد کی قیادت پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف اور چیئرمین راجا محمد ظفر الحق کریں گے۔ مریم نواز رات کو اسلام آباد پہنچ گئیں وہ بھی اے پی سی میں پارٹی کے وفد میں شامل ہوں گی۔ اے پی سی میں اپوزیشن حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے لئے اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ جے یو آئی سربراہ کی جانب سے اپوزیشن کی تمام پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی جاچکی ہے، ساتھ ہی ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے سربراہان کو بھی دعوت نامے بھجوائے گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن لیگ کے رہنمائوں کے ساتھ سینیٹر حاصل بزنجو، سردار اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی، آفتاب احمد خان شیر پائو کو بھی دعوت نامے بھجوائے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا وفد بلاول بھٹو کی سربراہی میں شرکت کرے گا۔ جماعت اسلامی نے کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کاحصہ بننے سے انکار کر دیا ہے جبکہ اختر مینگل آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں یا نہیں اس بارے میں صورت حال واضح نہیں۔ سربراہ جے یو آئی فضل الرحمن نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ طے ہوا ہے کہ اے پی سی آج ہی ہو گی۔ کٹوتی تحریک اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اے پی سی مؤخر کی جاتی۔ ابھی تک کسی نے نہیں کہا کہ اے پی سی میں شرکت نہیں کریں گے۔ تمام جماعتوں نے اے پی سی میں شرکت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے نکات کا فیصلہ اے پی سی میں ہی ہو گا۔ ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ اے پی سی میں دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہم موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اے پی سی میں آئندہ کی حکمت عملی طے ہو گی۔ میری رائے واضح ہے نئے شفاف الیکشن کرائے جائیں۔ آج اے پی سی میں اپوزیشن جماعتوں کی رائے سامنے آئے گی۔ سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ اے پی سی میں شرکت کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ملک کو مزاحمتی نہیں مفاہمتی سیاست کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ چلانے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو مصالحانہ طرزعمل اپنانا ہو گا۔ معاشی بحران ہماری بقا اور سلامتی کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میثاق معیشت پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ سنی اتحاد کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ نئی حکومت آنے سے عوام کو کسی بھی طرح کا کوئی ریلیف نہیں ملا۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ ہم اگر سیاسی استحکام لانے کی کوشش بھی کریں تو یہ حکومت سیاسی استحکام نہیں ہونے دے گی ، یہ حکومت چاہتی ہے کہ افراتفری رہے تاکہ اس کی نا لائقیاں چھپی رہیں ،جب تک یہ حکومت ہے سیاسی استحکام آہی نہیں سکتا پارلیمنٹ ہا وس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے مختلف تجاویز آرہی ہیں ،سب سے بڑی تجویز یہ ہے کہ پہلے ایم آر ڈی کی طرح ایک فورم قائم کیا جائے پھر وہ فورم فیصلہ کرے کہ استعفے دینے ہیں یا نہیں۔ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے محمود خان اچکزئی نے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں اے پی سی سمیت ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت اجلاس میں پی پی کی جانب سے اے پی سی میں شرکت کیلئے پانچ رکنی وفد تشکیل دیا گیا۔ وفد میں یوسف گیلانی، رضا ربانی، نیئر بخاری شیری رحمن اور فرحت اللہ بابر شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کے اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ آج پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کیا جائیگا۔