وزراء جگ ہنسائی نہ کرائیں‘ وزیراعظم عمران خان کی اختلافات ختم کرنے کی سخت ہدایت
وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے بعض ارکان کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں اور کہا ہے کہ باہمی اختلافات کو جگ ہنسائی کا سبب نہ بنائیں اور ایک ٹیم کے طور کام کریں۔ وزیر ایک دوسرے کے خلاف بات نہ کریں۔ پارٹی کا پلیٹ فارم اور وفاقی کابینہ بہتر جگہ ہے جہاں بات کی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے اس سلسلے میں وفاقی وزرا فیصل واوڈا، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران بعض وزراء کے درمیان ہونے والی گرما گرمی پر بات چیت کی گئی۔ وفاقی وزراء اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم کو اپنے اپنے موقف سے آگاہ کیا۔ بدھ کو وفاقی وزراء اسد عمر اور فواد چودھری کے درمیان بھی اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں دونوں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمی دور کی گئی۔ ملاقات میں فواد چودھری نے اسد عمر کو اپنے انٹرویو سے متعلق وضاحت پیش کی۔ دونوں وزرا نے گلے شکوے اور ناراضی ختم کر کے اکٹھے چلنے پر اتفاق کیا۔ فواد چودھری نے کہا کہ میرا بیان سیاق وسباق سے ہٹ کر چلایا گیا، میں نے ماضی میں ہونے والی صورتحال پر بات کی تھی۔ فواد چودھری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہم سب متحد ہیں۔ جمہوری پارٹی کے اندر ہر کسی کو رائے دینے کی اجازت ہوتی ہے۔ غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں جنہیں دور کر لیا گیا ہے۔ ہم سب نے مل کر پارٹی کیلئے کام کرنا ہے۔ اسد عمر نے کہا ہے کہ میں نے کبھی جہانگیر ترین کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ میں نہیں مانتا کہ مجھے جہانگیر ترین نے نکلوایا۔ جو بھی فیصلے ہوئے وزیراعظم نے کئے ہیں۔
ہمارے ہاں جمہوری پارٹیوں میں آمریت کی جھلک نظر آتی ہے۔ اختلاف رائے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے‘ پارٹی امور اور پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں کو پارٹی سے باہر کا دروازہ دکھا دیا جاتا ہے‘ اسی کے باعث کئی پارٹیوں کے اندر اختلاف رائے کا فقدان اور خوشامد کلچر پروان چڑھتا نظر آتا ہے۔ اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کرنے والی پارٹیوں کا سکڑنا ایک فطری امر ہے۔ تحریک انصاف کافی حد تک روایات سے ہٹ کر سیاست کررہی ہے۔ اس کا شمار ایسی پارٹیوں میں ہوتا ہے جن میں اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور اگر ایسی رائے پر اصلاح بھی کی جاتی ہے۔ اختلاف رائے کے اظہار کیلئے بھی پارٹی فورم ہی بہترین جگہ ہے۔ اگر آپ کابینہ کے رکن ہیں تو اس سے بہتر فورم کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
دو تین روز قبل کابینہ کے اجلاس کے دوران وزراء کی آپس میں گرماگرمی کی خبریں نشر اور شائع ہوئیں جو حکومت مخالف حلقوں میں بڑی دلچسپی سے دیکھی اور پڑھی گئیں جبکہ پارٹی میں نظم و ضبط پر یقین رکھنے والوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ بند کمرے میں کابینہ کے اجلاس کی ایسی باتیں کیسے میڈیا میں آگئیں جن کا مجاز ترجمان نے ذکر نہیں کیا۔ کابینہ میں کتنا ڈسپلن ہے‘ اس کا اندازہ اندر کی خبروں کے باہر آنے سے ہی ہو جاتا ہے۔ البتہ وزراء کے مابین پالیسی پر‘ ایک دوسرے کی کارکردگی اور کردار پر جو تحفظات یا اعتراضات تھے‘ انکے اظہار کا یہی مناسب فورم تھا۔ اجلاس میں وزراء کے ایک دوسرے پر الزامات گرماگرمی کی خبریں باہر آنے سے جگ ہنسائی ہوئی اور اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کرنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ اسی تناظر میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے کہا کہ کرونا ملک میں تباہی مچا رہا ہے جبکہ وزراء آپس میں لڑ رہے ہیں۔ پارٹی ڈسپلن کی مزید بھد اس وقت اڑتی نظر آئی جب ٹی وی ٹاک شوز اور انٹرویوز کے دوران بھی پارٹی کے اندرنی معاملات زیربحث لائے گئے۔ خصوصی طور پر فواد چودھری کے انٹرویو میں بڑے لیڈروں کے اختلافات کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا کہ جہانگیر ترین نے اسدعمر کو وزارت سے نکلوایا اور اسدعمر نے وزارت میں آکر انہیں پارٹی سے فارغ کرادیا۔ فواد چودھری کی طرف سے کہا گیا ہے کہ انکے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر چلایا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ انکے بیان کے کسی حصے کو انکے بقول ایسے ہی چلایا گیا ہو مگر بڑے لیڈروں کے ایک دوسرے کو وزارت اور پارٹی سے نکلوانے کے حوالے سے انکے بیان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ ایسے بیانات کو لے کر اپوزیشن تنقید کررہی ہے۔
اپوزیشن کا کام ہی تنقید ہے مگر ایسی حکومت کو اپوزیشن کی تنقید کی پرواہ نہیں ہوتی جو عوام کو وعدوں کے مطابق ریلیف پہنچا رہی ہو اور عوام اسکی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔ وجہ کرونا یا کوئی بھی ہو‘عوام بدستور ان وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں جو عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے کئے تھے۔ حکومت عوام کی خواہشات پر پورا اترنے کی پوری کوشش کررہی ہے مگر بدستور اس مقصد سے دور ہے۔ گورننس پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آٹا‘ چینی بحران پر انکوائری ہوئی‘ کمیشن رپورٹ حکومت کا کریڈٹ ضرور ہے لیکن ساتھ ہی پٹرول سستا ہونے پر اسکی قلت گورننس پر سوالیہ نشان بھی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے وزراء کے مابین غلط فہمیاں دور کرادی ہیں‘ انہیں متنازعہ بیان نہ دینے کی سختی سے ہدایت بھی کردی ہے‘ اب وزراء یقیناً محتاط رہیں گے مگر جو کچھ ہوا‘ اسکی بازگشت تادیر سنائی دیتی رہے گی۔ کابینہ اور پارٹی میں ڈھیلا ڈھالا ڈسپلن اعلیٰ قیادت کی نیک نامی کا باعث نہیں ہو سکتا‘ اس پارٹی کے ہر ورکر اور لیڈر کو ادراک ہونا چاہیے۔