ریاستی تشدد کیخلاف عالمی دن اور بھارت کیلئے خفت

ادھر بھارت سلامتی کونسل کی غیر مستقل سیٹ پر بیٹھا۔ ادھر یو این او نے ایسے عالمی دن منانے شروع کر دیئے کہ بھارت کو منہ چھپانے کی جگہ نہیںمل رہی۔ایذا رسانی اور ریاستی تشدد کے متاثرین کی حمایت کا عالمی دن ہر سال چھبیس جون کو منایا جاتا ہے۔پہلی مرتبہ یہ دن چھبیس جون انیس سو اٹھانوے کو منایا گیا جس میں دنیا بھر میں ایذارسانی کے شکار افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا اور ایذارسانی اور تشدد کی ہر قسم کے خلاف آواز بلند کی گئی۔اقوام متحدہ کے مطابق ایذارسانی کا مطلب کسی شخص کو جسمانی یا ذہنی طور پر براہ راست یا بالواسطہ ‘ ایک مرتبہ یا مسلسل تکلیف ‘ جبر اور ایذا پہنچانا ہے۔یہ دن انیس سو ستاسی کو بننے والے اقوام متحدہ کے اس کنونشن کی یاد کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں جنگوں میں ایذارسانی ‘ تشدد‘ بدکاری اور دیگر ظالمانہ اور غیر انسانی فعل کے شکار افراد کی امداد‘ حمایت اور انہیں انصاف دلانے کے لئے جدوجہد کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس کنونشن کی ایک سو باسٹھ ممالک نے توثیق کی۔اقوام متحدہ پوری دنیا میں موجود غیر سرکاری تنظیموں کے ایذارسانی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ اس حوالے سے ایک فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے دنیا بھر کی تنظیموں کو ایذارسانی کا شکار افراد کے طبی‘نفسیاتی‘قانونی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں نجی ٹارچر سیلز موجود ہیں جہاں طاقتور افراد کمزوروں پر تشدد کرتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے سینکڑوں ایسے ٹارچر سیل قائم کئے ہوئے ہیں جہاں پر دس برس کے بچوں سے لے کر نوے سالہ بزرگوں پر گزشتہ کئی عشروں سے جسمانی‘ ذہنی اور نفسیاتی تشدد کیا جارہا ہے۔ اس ایذا رسانی کے حوالے سے بھارت نے دنیا بھر کی مثالوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق ان ٹارچر سیلز میں سے ایسی صدائیں بلند ہوتی ہیں کہ ہم پر تشدد نہ کرو بلکہ ہمیں گولی مار دو۔لیکن بے رحمی اور وحشت کا شکار بھارتی فوج کے اہل کار ان مظلوموں کی آہ وبکا پر کوئی دھیان نہیں دیتے۔وہ سنگدلی کی انتہا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔برلن دیوار کیا ٹوٹی کہ ساری دنیا میں آزادی کی تیز رفتار ہوائیں چلنے لگیں۔اس لہر کے زیر اثر کشمیری بھی جاگے اور فروری نوے میں انہوںنے اپنے حقوق اور حصول آزادی کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ لی۔ فلسطینیوں کی طرح ان کے ہاتھوں میں بھی صرف سنگ پزے تھے مگر جواب میں بھارتی فوج کے ٹینک دھاڑتے۔ مشین گنیں شعلے اگلتیں اور مارٹر توپیں کشمیریوں کے گھاس پھونس کے گھروں کو تہس نہس کر کے رکھ دیتیں۔اگلے بیس برسوں میں بھارتی فوج نے کشمیر کی پوری نوجوان نسل ختم کر دی اور سری نگر کے قبرستان میںایک لاکھ نئی قبروں پر پھول کھلے مگر کشمیری اپنی جدو جہد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ انہیں استصواب کا حق سلامتی کونسل نے د یاتھا جہاں آج بھارتی مندب دندنا رہا ہے۔ بھارت کو وہم تھا کہ ان نوجوان کشمیریوں کی پشت پناہی پاکستان سے کی جا رہی ہے مگر برہان وانی کی شہادت نے بھارت کے اس پراپیگنڈہ کی ہوا بھی نکال دی۔ وانی اسی دھرتی کا ایک شگوفہ تھا جسے بھارت نے بے دردی سے مسل ڈالا۔ بھارت نے سفاکی کی انتہا کرتے ہوئے شہید برہان وانی کی لاش کو ایک گدھا گاڑی پر لاد کر سری نگر کے گلی کوچوں میں گھمایا مگر شہید کا جنازہ دیکھنے والا تھا جیسے پہاڑوں سے چشمے ابلتے ہیںاس طرح پوری وادی کے مردوزن ان کے جنازے میں شرکت کے لئے امڈ آئے۔بھارت نے کشمیریوں پر تشدد کے لئے ایک ا ور بہانہ تراش لیا ہے کہ کسی مکان کے بارے میں کہہ دیا کہ اس میں مجاہدین چھپے ہوئے ہیں اور پھر ان پر اس مکان کے باسیوں پر اس طرح دھاوا بولا جاتا ہے کہ انسانیت بھی آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ مکان پر زور ادر گولہ باری کے بعد اس پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے اور کوئی بچہ بھی باہر نکلنے کی کوشش کرے تو اسے سیدھا گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے یہ معصوم تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے مگر اس کے خون کے فوارے سے نئے حریت پسند پھوٹتے ہیں۔بھارت نے ہٹلر کی طرح کشمیریوں کی نسل کشی کا راستہ ا ختیار کر رکھا ہے وہ بچوں بوڑھوں اور خواتین تک کسی کومعاف نہیں کرتا ، جو ہتھے چڑھتا ہے اسے تشدد سے شہید کیا جاتا ہے اور عبرت کی مثال بنانے کے لئے اس کی لاش لال چوک یا جامعہ مسجد کی سیڑھیوں پر رکھ دی جاتی ہے۔پچھلے سال پانچ اگست کو بھارت نے آئین میں نام نہاد ترمیم کر کے وادی کشمیر کو ہڑپ کر لیاا ورا س اقدام کے خلاف ہر آواز کو خاموش کرانے کے لئے لاک ڈائون کر کے ایسا اندھیرمچایا کہ دنیا کوا سکی خبر تک نہ ہو سکی کیونکہ تمام فون بند تھے۔انٹر نیٹ اورو ائی فائی تک کاٹ دی گئی تھی تاکہ بھارتی تشدد کا شکار ہونے والے اپنی بپتا کسی کو سنانے کے قابل نہ رہیں۔کشمیر کے وہ لیڈر جو ستر برسوں سے بھارت کے ہم نوا تھے وہ بھی چیخ اٹھے کہ کشمیر ایک عقوبت خانہ ہے اور ایک وسیع جیل کا نام ہے۔جہاں سے کسی کی چیخ بھی باہر سنائی نہیں دیتی ۔بھارت وقت کا نیا فرعون ہے۔نیاشداد ہے۔ نیا ہلاکو اور چنگیز خان ہے ۔ دنیا آج ایذا رسانی اور تشدد کے ہر ہتھکنڈے کی مذمت کے لئے خصوصی دن منا رہی ہے اور بھارت کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔
٭…٭…٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن