لاہور(خصوصی نامہ نگار) چودھری شجاعت حسین نے وزیراعظم کی تقریر پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے آخری پندرہ منٹ سننے کے بعد تین چیزوں پر زور دینا چاہتا ہوں، وزیراعظم نے تعلیمی نصاب پر بات کی، کاش وہ ہمارے دور میںتعلیم اور خصوصاً دینی مدارس کیلئے جو خدمات انجام دیں ان کا بھی ذکر کر دیتے۔ انہوں نے کہا کہ صدر پرویزمشرف کے زمانے میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی مدارس کے حق میں کھل کر بات کرتا، لیکن میں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی اور دیگر علماء کرام نے مدارس کے حق میں آواز اٹھائی اور پرویز مشرف نے ہمارے قائل کرنے پر یو این میں جا کر اس پر بات بھی کی تھی۔ نصاب میں تبدیلی پر میری وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے تین بار بات ہوئی تھی اور انہوں نے یقین دلایا تھا کہ آپ کی تجاویز کو وزیراعظم اور کابینہ کے سامنے رکھوں گا، میں نے اپنی تجاویز میں صوبوں اور وفاق میں ایک نصاب کرنے کہا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ صوبوںکو ہدایات دیں کہ وہ اس پر پوری نظر رکھیں تاکہ وہ ہماری آنے والی نسلوں کو حقیقت سے آگاہ رکھیں، جیسا کہ پاک فوج کی قربانیاں، نشان حیدر جیسے اسباق اور قومی سوچ کو اجاگر کرنے کے حوالے سے مضامین کو بھی نصاب سے نکال دیا گیا تھا جس پر میں نے آواز اٹھائی تھی کہ یہ زیادتی کی گئی ہے۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں اربوں کے گھپلے کی بات تو کی لیکن کھربوں کے گھپلوں کی بات نہیں کی جو اس ملک میں ہوئے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ حکومت کو کشمیر کے معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے تاکہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی داد رسی ہو سکے یا پھر وہ حل بتا دیں کہ رات کے اندھیرے میں بھارتی فوجی نابالغ لڑکیوں کو اٹھا کر بیرکوں میں لے جا کر ریپ کرتے ہیں پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے انہیں گھر پہنچا دیا جاتا ہے اور ان کو نئے کپڑے اور جعلی زیور پہنا کر کہا جاتا ہے کہ ان کی شادی ہوگئی ہے ان کے ماں باپ کیا فریاد کریں اور جا کر اپنی فریاد کس کو سنائیں۔