فلمی صنعت کی مشہور و معروف شخصیت صبیہ خانم13جون کو امریکہ میں انتقال کرگئی تھیں
شہرہ آفاق ڈرامہ نگار اور فلاسفر شکپسیر کا "کہنا ہے کہ دنیا گویا ایک اسٹیج کی مانند ہے اور ہم سب اس کے کھلاڑی ہیں"جب بھی کوئی شخص کھیل کے اس میدان سے اپنی باری مکمل کر کے نکل جاتا ہے تو جانے والے کی زندگی کے ہر پہلو کو دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنی زندگی میں کیسے" ایکٹ" کیااور زندگی کو کیسے گزارا؟ زندگی کے روشن اور تاریخ پہلوں کو دیکھنے کیلئے فلم ، ڈرامہ اور تھیٹر بھی ایکٹنگ کا ایک ذریعہ ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب پاکستان کے معاشرے میں جب تفریح کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا توسینما ہالوں میں فلم وغیرہ دیکھنے کو زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اگرچہ بڑے بزرگ ڈانٹ ڈپٹ ضرور کیا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد لاکھوں لوگوں نے دو طرفہ طور پر ہجرت کی تو دونوں ملکوں کے فلم سازوں نے اپنی اپنی فلموں میں تقسیم کے دردناک مناظر کو اس طرح فلمایا کہ لوگ ان فلموں کو دیکھ کر اپنی پیاروں کا یاد کرتے تھے کیونکہ یہ فلمیں انھیں ماضی کے گزرتے ہوئے بچپن اور جوانی کے دور میں واپس لے جاتی تھی۔۔صبیحہ خانم نے پاکستان فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا لیکن صبیحہ ، سنتوش کی جوڑی کو اتنا پسند کیا گیا کہ لوگ عملی زندگی میں بھی لوگ انہیں الگ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔بلا آ خر یہی فلمی کردار شادی کے بندھن میں بندھ گیا تو شائقین نے انہیں اپنے سر انکھوں پر بٹھایا ۔ صبیحہ خانم کا اصلی نام مختار بیگم تھا۔ وہ 1935میں گجرات میں پیدا ہوئیںانکی والدہ کا نام اقبال بیگم عرف بالو جب کہ والد کا نام محمد علی ماہیا تھا اُن کی والدہ اور والد کا لاہور سے تھا اوردونوں تھیٹر میں کام کرتے تھے والدہ کی وفات کے بعد انکی پرورش دادا دادی کے پاس گائوں کے ایک مخصوص ماحول میں ہوئی یہاں تک کہ انھیں بچپن میں انہیں ایک مسجد میں بھی رہنے کا اتفاق ہوا اور گائوں کی اس زندگی نے انہیں کسی حد تک دینی تعلیم سے بھی روشناش کرا دیا ۔ لاہور میں اُن کے والد انھیں کسی تھیٹر میں لے گئے تھیٹرز کی ہیرون کی اتفاقیہ غیر حاضری کی وجہ سے جب انہیں کام کرنے کا موقع دیا گیا تو انکی اداکاری کے جوہر دیکھتے ہوئے ان کے والد نے انہیں شاعر نفیس خلیلی سے ملوایا جنہوں نے اُن کا نام مختار بیگم سے صبیحہ خانم رکھا بعد ازاں نفیس خلیلی کی درخواست پر مسعود پرویز نے 1950میں انھیں" بیلی "میں کردار دیایہ ان کی پہلی فلم تھی۔ اگرچہ ان کی پہلی دو فلمیں ناکام تھی لیکن تیسری فلم "دو آنسو "میں انکی اداکاری بے مثال تھی ۔ یہ فلم ایک سینما میں25ہفتوں تک لگاتار چلتی رہی انکی اداکاری عام گھریلو خواتین کی طرح بے شاختہ ہوتی تھی ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ ایک فقرے یا ڈائیلاگ کو10مختلف طریقوں سے ادا کر سکتی تھیں۔ ان کی مشہور فلم آس پاس، شیخ چلی اس کے علاوہ غلام، آس پاس، شیخ چلی ، سسی، چھوٹی بیگم،مکھڑا ، ا ٓغوش ، دولہا بھٹی، سرفروش، عشقِ لیلیٰ اور کئی دوسری فلموں میں کم و بیش دو سو فلموں میں لگ بھگ چار دہایوں تک کام کیا۔انھیں تاشقند کے فلم فیسٹیول میں بہترین اداراری کا ایوارڈ دیا گیااور1987میں پرائڈ آف پرفارمنس کے صدارتی ایوارڈ سے نوازہ گیا ۔ اسی سال انھوں نے ٹیلی ویزن کے پروگرام سلور جوبلی میں مشہور گیت جگ جگ جیوئے میرا پیارا وطن۔ لب پہ دعا ہے دل میں لگن !
گایا جب سنتوش کمار( موسی رضا ) کے ساتھ شادی کا موقع آیا تو اُن کے والد نے مخالفت کی "کہ سنتوش کمار تو پہلے ہی سے شادی شدہ ہے اس کی فیملی بھی بہت بڑی ہے اور تمہیں روٹیاںپکانے سے ہی فرصت نہیں ملے گئی" لیکن صبیحہ خانم نے والد سے کہا کہ میں اور سنتوش کمار اکھٹے کام کرتے ہیں میرا ا ُن سے بہت ہی عزت اور احترام کا رشتہ ہے۔ اُن کی پہلی بیوی جمیلہ بھی نہایت نفیس خاتون تھیں۔ غالبا1964کا ذکر ہے جب بیرون ملک پاکستانیوں کی دعوت پر پاکستان کے ایک فلمی وفد نے برطانیہ کا دورہ کیا تو برطانیہ سے اُس وقت واحد ہفتہ روزہ"شائع ہوتا تھا جسکے ایڈیٹر محمود ہاشمی اور مینجنگ ایڈیٹر بڑے بھائی عبد الرزاق تھے۔ اس وفد کی بہت آئو بھگت کی گئی ان کی کلچرل اور فلمی مصروفیات کو اخبار میں اہم جگہ دی گئی صبیحہ خانم اور سنتوش کمار نے میرے بڑے بھائی کے گھر قیام کیا تو معلوم ہوا کہ سنتوش کمار انتہائی پڑھے لکھے اورصبیحہ نہایت نفیس خاتون ہیں دونوں میاں بیوی کی گفتگو اور بات چیت اتنی خوبصورت اور دلکش ہوتی تھی کہ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ خاتون فلموں میں بھی کام کرتی ہیںسب لوگ انھیں احترام سے صبیحہ بھابھی ہی کے نام سے پکارتے تھے۔تقریباََ تین سال بیشر نواسی کی شادی میں وہ لاہور آئیں تو انھوں نے محمد علی کی بیگم زیبا کو یاد کیا زیبا بتاتی ہیں کہ جب میں انھیں ملی تو وہ دوپٹے میں لپٹی ہوئی تھی اور گورے رنگ میں ایسے لگ رہی تھی جیسے آسمان سے فرشتہ اتر آیا ہو لیکن جب 1982میں ان کے شوہر سنتوش کمار انتقال کر گئے تو وہ فلمی ماحول سے دور ہوتی گئیںوہ کہتی تھیں کہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت دن وہ تھا جس دن میری شادی سنتوش کمار سے ہوئی اور سب سے غمگین وہ تھا جس دن میرے شوہر انتقال کر گئے وہ فلموں میں کام کرنے کے باوجود ایک باوقار ، حیادار اور شوہر کی وفا کے لئے مر مٹنے والی "پتاورتی" قسم کی خاتون تھیں۔شوہر کے بعد وہ فلمی صنعت سے دور ہو گئیں اور اپنی گھریلو زندگی اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئیں۔ اُن کا ایک بیٹا اور بیٹی پہلے ہی امریکہ میں مقیم تھے جب انکا بڑا داماد فوت ہو ا تو وہ بھی مستقل طور پر امریکہ میں شفٹ ہو گئیں۔ محمد علی کی اہلیہ زیبا کے مطابق وہ بار بار کہتی تھیں کہ پاکستان مجھے بہت یاد آتا ہے۔جب سنتوش کمار کی فلمی دنیا سے مصروفت کم ہوئیں تو وہ ٹیلی ویژن بنانے والے کمپنیRGAمیں مینجنگ ڈائریکٹر بن گئے1970کے دور میں لوگ ٹیلی ویژ ن کی تصویر کو بڑی حسرت دے دیکھتے تھے1980کے عشرے میں ضیاء الحق نے فیصلہ کیا کہ 14اگست کے دن کو شان و شوکت سے منایا جائے بڑے بڑے شاعروں ادیبوں، دانشوروں اور فلمی اداکاروں کو یوم آزادی پر پریذیڈنٹ ہائوس میں عزت افزائی کے لئے بلایا گیا ہم نے بھی اخبار کیلئے نئی نئی رپورٹنگ شروع کی تھی۔ جب مجھے پتہ چلا کہ صبیحہ خانم بھی اس فنگشن میں موجود ہیں تو میں انکے پاس چلا گیا اورمیں نے ان کو اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ میں عبد الرزاق کا چھوٹا بھائی ہوں تو انہوں نے سٹیج سے اٹھ کر گلے لگا لیا اور ایک ماں کی طرح پیار اور عزت دی میں آج تک انکی اس عزت افزائی کو نہیں بھول سکا جب مجھے مشہور صحافی کے کالم سے پتہ چلا کہ وہ کوئی معمولی خاتون نہیں تھیں بلکہ پچاس سال پہلے بھی ایک تہجد گزار خاتون تھیں تو میرے دل میں انکی عزت اور بڑھ گئی اور یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ بظاہر فلموں میں کام کرنے والے خاتون اندر سے کتنی پاکیزہ اور فرشتہ سیرت تھیں۔
انکے مشہور و معروف گانوں کو لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں اور دل میں گنگھناتے ہیں