کشمیریوں کو خون کے آنسو رلانے والی بھارتی فوج کی دھاڑیں اور ہچکیاں !

بروز منگل 16جون 2020 کو بھارتی وزرات دفاع کی طرف سے جاری کی گئی خبر کے مطابق لداخ کے متنازعہ علاقے گلوان وادی میں چینی و بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں بھارتی بہار ریجمنٹ کا کمانڈانٹ کرنل سنتوش بابو اپنے 2جوانوں سمیت مارا گیا ۔ بھارت کے الیکٹرانک میڈیا پر خبر بریک ہوئی کہ جھڑپ میں بھارتی فوج میں تین اموات کے بدلے چینی فوج کا بہت زیادہ جانی نقصان ہواہے۔ بھارت کا میڈیا مزید کچھ بتانے کو تیار نہیں تھا جبکہ بھارت سرکار اور خاص کر وزارت دفاع نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اسی اثناء میں بہار ریجمنٹ کے جھڑپ میں جان بچا کر بھاگنے والے فوجیوں نے اپنی تعیناتی کے مقام سے ادھا کلومیٹر پیچھے ریجمنٹ کے ہیڈکوارٹر پہنچنے پر وہاں کے مناظر ویڈیو کی شکل میں موبائل فون کیمروں میں عکس بند کر کے بھاررت میں اپنے عزیزواقارب کو بھیج دیے ۔ ویڈیو میں دکھایا گیاکہ بھارتی فوجی ایک دوسرے کو گلے ملتے ہوئے دھاڑ یں مار کر رو رہے ہیں ۔ ان کے آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے کچھ کی روتے ہوئے ہچکیاں بندھ چکی ہیں سب رو بھی رہے ہیں اور ایک دوسرے کے آنسو بھی صاف کر رہے ہیں ۔ چادروں میں لپٹی لاشوں کو جن کی تعداد دیکھنے میں 3 سے کہیں زیادہ تھی ایک طرف اکٹھا کیا جارہا ہے ۔ بھارت میں بعض گھرانوں کو فون کر کے اطلاع دی گئی کہ ان کا بھائی وبیٹا لاپتہ ہے یا چینیوں کے ساتھ جھڑپ میں مارا جاچکا ہے ۔ ویڈیو میں موقع پر برپا قیامت نے لواحقین کو نڈھال کر دیا۔ انہوںنے بھارت میں اپنے علاقوں میں فوجی چھائونیوں سے رابطہ کرنا چاہا تو ہر طرف سے انتظار کرنے کو کہا گیا یہ خبر بھارتی میڈیا تک بھی پہنچ چکی تھی کہ لداخ کی گلوان وادی میں چین کے ہاتھوں مارے گئے بھارتی فوجیوں کی تعداد تین نیں بہت زیاہ ہے لیکن بھارتی وزارت دفاع واضح کرنے کو تیار ہی نہیںتھی کہ بتائے جھڑپ کی وجہ کیا بنی ۔ جھڑپ میں کس طرح کا اسلحہ تیار کیاگیا اور ریجمنٹ کا کرنل کمانڈانٹ کیسے مارا گیا ؟بھارتی میڈیا پر چین کو دھمکیاں اور جھڑپ پر تبصرے جاری تھے کہ لداخ میں چینی فوج کا نشانہ بننے والی بہارریجمنٹ کے ایک سابق ریٹائرڈ کمانڈانٹ کرنل اجے شکلا کے ٹویٹ نے ہلچل مچادی۔ کرنل اجے شکلا نے لکھا کہ مارے گئے بھارتی فوجیوں کی تعداد 47 سے زیادہ اور 135کے لگ بھگ زخمی ہیںاوران زخمیوں میں سے شاید کچھ جانبر نہ ہوسکیں ۔ اس نے مزید لکھا کہ 65کے قریب بھارتی فوجی قیدی بنائے گئے لیکن ان میں سے بعض کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا ۔ تاہم ایک میجر سمیت تقریباً35بھارتی جوان چین کے قبضے میں ہیں ۔ کرنل اجے شکلا کے ٹویٹ سے انکشاف ہوا کہ جھڑپ میں نہ کوئی گولی چلی نہ ہی اسلحہ کا استعمال ہوا۔ یہ دوبدولڑائی تھی جس میں مکوں ٹھڈوں اور لکڑی کے ڈنڈوں کے استعمال ہوا۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ بھارت میں فوج کا مورال پہلے تباہ حال تھا۔ اس جھڑپ کے بعد شاید بھارت کا جوان چین کے ساتھ جنگ لڑنے کے قابل نہ رہے۔ ساتھ ہی چین کی وزرات دفاع کی طرف سے لداخ میں کچھ عرصہ قبل کی جانے والی جنگی مشقوں جس میں چینی ایئرفورس بھی شامل تھی کی ویڈیوز جاری کری دی گئیں ۔چینی الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے لداخ میں چینی فوج کی طرف سے نصب کیے گئے سینکڑوں کی تعدادمیں جدید میزائل ، توپ خانہ وبکتر بند گاڑیوں اور دیگر جدید اسلحہ کی موجودگی کی نشاندہی بھی کردی گئی۔ یہ بھارت کے لیے پیغام تھا کہ اگر اس نے جارحیت کی حماقت کی توا س کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ کئی ہفتوں سے جاری کشیدہ صورت حال اور بھارتی واویلے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چینی فوج کے گلوان کی وادی میں 60کلومیٹر علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے اوراہم پہاڑی چوٹیوں پر قبضے کے بعد چین کے وزیر خارجہ نے پہلی بار ٹیلی ویژن پر آکر بیان جاری کیا کہ چین کی فوج اپنے علاقے میں ہے۔ بھارتی فوج نے ایک ماہ قبل بھی چینی علاقے میں داخل ہوکر وہاں موجود چینی فوج کے دستے کو دھمکانے کی کوشش کی اور اب دوسری بار بھارتی فوج کا طریقہ پہلے سے کہیں زیادہ جارحیت پرمبنی تھاجس کا موثر جواب دیا گیا ۔ اس نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فوج میں ان عناصر کے خلاف کاروائی کر ے جو کشیدگی میں اضافہ کے مرتکب ہوے اس نے واضح کیا کہ ’’چین امن پر یقین رکھتا ہے اور تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا حامی ہے۔ لیکن کسی کوچین کی سالمیت پر وار کی اجازت نہیں دی جاسکتی ‘‘۔
گلوان وادی کے بارے میں چینی میڈیا کا موقف ہے کہ چین بھارت کو 1962سے احساس دلاتا چلا آرہا ہے کہ یہ تاریخی طور پر چین یعنی تبت کا اٹوٹ انگ ہے ۔ جس کی ملکیت پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ چین کا دعویٰ پورے لداخ کے علاوہ تبت سے نیچے بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے اضلاع Pulam Sumda, Nelang اور Sang Jadhangکے علاوہ ریاست اتر کھنڈ کے اضلاع Uttarkashi، Lapthal پر بھی ہے ۔ چین ان تمام علاقوں کو زبان ، تہذیب و تمدن، تاریخی کتب اور انگریزوں کے دور میں خطے میں کئے جانے والے معاہدوں کی روسے تبت کا حصہ قرار دیتے ہوئے ان علاقوں پر کنٹرول اپنا حق سمجھتا ہے تاہم وہ ان متنازعہ علاقوں پر قبضے کیلئے طاقت کے استعمال کی بجائے مسئلہ بات چیت سے سلجھانے کے حق میں ہے ،اس حوالے سے چین و بھارت کے مابین مذاکرات کے بہت سے دور ہو چکے ہیں ۔ یہاں اس بات کو بھی ذہین میں رکھیے کے مشرق میں بھوٹان اور آسام و ناگالینڈ کے درمیان بھارت کی1972میں تشکیل پانے والی ریاست اروناچل پردیش پر بھی چین ملکیت کا دعوے دار ہے۔ گلوان کی وادی میں گزشتہ چند برسوں سے بھارت کی طرف سے کی جانے والی غیر معمولی تعمیرات بتدریج فوج کی نفری اور جدید اسلحہ کے حوالے سے استعداد میں اضافہ کے ساتھ ہی وہاں بھارتی فوج کے نقل و حرکت کو دیکھتے ہوئے چین کو یقین تھا کہ اگر اس موقع پر بھارت کو بھرپور قوت کے ساتھ نہ روکا گیا تو یہ اکسائی چن کے علاوہ صوبہ سنکیا نگ کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ویسے بھی سنگیا نگ تک چین کیلئے آسان رسائی براستہ اسکائی چن ہی ممکن ہے۔ اب سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمانڈانٹ کی قیادت میں بھارتی فوج کی پوری بٹالین اسلحہ کے بغیر چینی فوج کے کیمپ میں کیا لینے گئی تھی؟ بھارتی فوج کا موقف ہے کہ کرنل سنتوش بابو اپنے میجر اور چند جوانوں کے ساتھ چینی فوج سے مذاکرات کیلئے وہاں گیاتھا۔ اگر مقصد بات چیت ہی تھا تو اس کیلئے پوری بٹالین کو ساتھ لے جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور ان حالات میں جب جی او سی کی سطح پر علاقے میں تعینات دونوں ملکوں کی طرف سے جرنیلوں کے مابین فلیگ اسٹاف میٹنگ کے تحت دو ملاقاتیں ہو چکی تھیں تو پھر اس میں ایک کرنل کیا کردار ادا کرسکتاتھا۔ اور یہ مذاکرات کا کونسا اچھوتا طریقہ کار تھا جس میں نوبت ہاتھا پائی سے بڑھ کر پہلے ٹھڈوں ، گھونسوں اور پھر خاردار تاروں و کیل لگے ہوئے ڈنڈوں سے پٹائی تک جا پہنچی جس سے 47سے زیادہ بھارتی فوجی مارے گئے اور زخمیوں میں سے 91کی حالت تشویشناک ہونے پر انہیں ہیلی کاپٹر پرلیحہ میں سدرن کمانڈ کے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا ۔ ایک عجیب افراتفری ہے جو بھارتی فوجی قیادت میں نظرآرہی ہے بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی اورا س کا وزیر دفاع ابھی تک اپنے مارے گئے فوجیوں کیلئے افسوس کا اظہارتک نہیں کر پائے ۔ چین اور پاکستان کے ساتھ ایک ساتھ جنگ اوردونوں ملکوں کو سبق سکھانے کے دعوے دار بھارت کے حکمران و سیاستدان پریشان ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ جنگ کی حالت میں ہونے کے باوجود لداخ میں اگلے مورچوں پر بھارت کی فوج غیر مسلح کیوں تھی ؟ عوام پوچھ رہے ہیں کہ اگر ایک گولی کے جواب میں چین کی طرف سے سینکڑوں گولے فائر کیے جانے کا خوف تھا تو پھر بھارت نے اتنی بڑی فوج کیا صرف کشمیر میںآزادی کی تحریک چلانے والوں کو جعلی مقابلوں میں مارنے اور ان کے بچوں کو خون کے آنسورولانے کیلئے پال رکھی ہے ؟اور یہ کس طرح کی فوج ہے جس کی خود پر بن آئی ہے تو روتے روتے ہچکیاں ہی بند نہیں ہورہیں۔

ای پیپر دی نیشن