محصورین بنگلہ دیش بھی پاکستانی ہیں ! 

گزشتہ دنوں میڈیا پر چلنے والی ایک خبر کے مطابق بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ کے قریب نارائن گنج اور کمپنی بگان میں واقع محصورین پاکستانیوں کے 400 خاندانوں کو کیمپ خالی کرنے کا نوٹس دیدیا گیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اگر کیمپ خالی نہ کیے گئے تو انہیں مسمار کر دیا جائیگا۔ اس صورتحال سے محصور پاکستانیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ تحریک محصورین مشرقی پاکستان کے قائم مقام چیئرمین حسن امام صدیقی اور جنرل سیکرٹری حیدر علی حیدر نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کی ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت سے فوری رابطہ کریں اور ان کیمپوں کو مسمار ہونے سے بچائیں۔ یاد رہے کہ ڈھاکہ سمیت رنگ پور، چٹاگانگ، سیدپور، کھلنا اور میمن گنج سمیت بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں 117 کیمپس قائم ہیںجہاں چار لاکھ سے زائد محصورین زندگی گزار رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی جھگیوں میں یہ افراد رہائش پذیرہیں جنہیں چھت نصیب ہے نہ مضبوط دیواریں۔ پھٹے ہوئے کپڑوں سے آڑ بنائی گئی ہے۔ اس میں جگہ جگہ سوراخ ہیں، جو گرمیوں میں تندور اور سردیوں میں سرد ہوائیں سینکڑوں کی جان لے کے ہی ٹلتی ہیں۔ 
یہی نہیں کیمپس میں ساڑھے تین سو افراد کیلئے صرف پانچ واش رومز میسر ہیں۔ یعنی تقریباً ستر افراد کیلئے صرف ایک واش روم ہے اور بارش کے دوران بیت الخلا کی غلاظت کیمپوں کے راستوں میں پھیلی ہوتی ہے۔ ان کیمپوں میں محصورین وہ محب وطن پاکستانی ہیں جن کے آباواجداد نے پہلے قیام پاکستان کیلئے قربانیاں دیں اور بعدازاں 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کیساتھ ملکر متحدہ پاکستان کی بقاء کیلئے جدوجہد میں حصہ لیا۔ نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی محب وطن پاکستانیوں کی وطن واپسی کو یقینی نہیں بنایا گیا حالانکہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت ان بہاریوں کی حب الوطنی کی گواہ ہیں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تحریک پاکستان ایک عوامی تحریک تھی جس میں مسلمانان برصغیر نے رنگ و نسل، ذات برادری، حسب ونسب اور علاقوں کی تمیز کیے بغیر دل وجان سے حصہ لیا۔ 23 مارچ 1940ء کو جب قرارداد پاکستان کے ذریعے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل الگ اسلامی مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تو جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں تھے انہیں یقین ہو گیا کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن اسکے باوجود انہوں نے حصول پاکستان کی جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا اور اپنا تن من دھن پاکستان کیلئے قربان کر دیا۔ تحریک پاکستان میں اہل بنگال کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، مارچ 1940ء کے تاریخی اجلاس میں قرارداداد پیش کرنے کی سعادت بھی شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق کے حصے میں آئی تھی۔ پاکستان کرہ ٔ ارض کا پہلا ملک تھا جو نظریۂ قومیت کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا۔بانی پاکستان قائداعظم نے امت مسلمہ کو اتحاد کا درس دیا اور آپ پاکستان میں ایک ایسا مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے خواہاں تھے جو پوری دنیا کیلئے ایک مثال ہو۔
 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے والا پاکستان خیبر سے چاٹگام تک پھیلا ہوا تھا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان سینکڑوں میل کا فاصلہ تھا مگر دونوں حصوں کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ 14اگست1947ء کو ایک پرچم تلے کامیاب جدوجہد کرنیوالی امت کے اتحاد میں 16دسمبر 1971ء کو شگاف آ گیا۔ پاکستان کا مشرقی بازو توڑنے مین بھارتی کردار تو خیر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور بنگلہ دیش کی گولڈن جوبلی تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے نریندرا مودی کی شرکت اس بات کا اعتراف ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی بھارتی دخل اندازی کے بغیرممکن نہ ہوتی جبکہ نریندرا مودی کئی بار برملا اس بات کا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ بھارت نے بنگلہ دیش بنانے کیلئے بھرپور مدد فراہم کی تھی۔ 
1971ء کا سانحہ کوئی بھی محب وطن نہیں بھلا سکتا ہے۔ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو لوگ 1947ء میں آسام ،بہار ،یوپی اور سی پی سمیت اردگرد کے علاقوں سے مہاجرین بن کر خاک وخون سے گزر کر مشرقی پاکستان آئے تھے محض اردو بولنے کی وجہ سے اس ملک میں اجنبی ہو گئے۔انہیں بنگالی نہیں بلکہ بہاری کہہ کر شہریت سے محروم کر دیا گیااور انتہائی نارواسلوک کیا گیا۔ بنگلہ دیش میں کیمپوں میںبے بسی و لاچارگی سے زندگی گزارنے والے یہ مسلمان آج بھی ہماری مدد کے منتظر ہیں۔ ان لوگوں نے متحدہ پاکستان کیلئے قربانیاں دیں، اپنے وطن کو دشمنوں کی سازش سے بچانے کیلئے جدوجہد کی لیکن انہیں کیا صلہ ملا، وہ اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو کر رہ گئے۔ 1974ء میں نئی دلی میں ہونیوالے سہ فریقی معاہدے (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) کے تحت پاکستان اس بات کا پابند تھا کہ تین سال کے اندر بہاری کہلانے والے محصورین کو پاکستان میں آباد کریگا۔ اسکے بعد 80 کی دہائی میں محصورین کی واپسی کیلئے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے بار بار متفقہ قراردادیں منظور ہوتی رہیں۔ چاروں صوبوں کے نمائندہ سینیٹروں کا وفد محصورین کے کیمپوں کا دورہ کر کے آیا تو واپس آکر سینیٹ میں محصورین کا حال بتایا، دل سوز تقریریں کیں جس کے بعد سینیٹ نے محصورین کی جلد از جلد واپسی یقینی بنانے اور انہیں پنجاب میں آباد کرنے کی متفقہ قرار داد منظور کی۔ جونیجو دور حکومت میں ہر سال بجٹ میں محصورین کی واپسی کیلئے رقم مختص ہوتی رہی۔ 1988 ء میں رابطہ عالمی اسلامی میں محصورین کی واپسی کیلئے باقاعدہ فنڈ قائم کیا گیا، جس میں 25 کروڑ روپے رابطہ عالم اسلامی نے اور 50 کروڑ روپے پاکستان نے دئیے جبکہ دیگر اسلامی ممالک نے بھی امداد فراہم کی۔ 1992 میں نواز شریف کے دور حکومت میں بیگم خالدہ ضیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کیمپوں میں مقیم تمام لوگوں کو پاکستان واپس لایا جائیگا۔ 1992 میں 350 بہاریوں کو پاکستان لا کر پنجاب میں میاں چنوں کے مقام پر آباد کیا گیا لیکن لاکھوں پاکستانی اب بھی انسانی المیہ سے دوچار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جب عنان اقتدار سنبھالی تو کراچی میں مقیم بنگالیوں کو شناختی کارڈ کے اجراء کا اعلان کیا تھا۔ بنگالی ہمارے بھائی ہیں، پاکستان میں قیام پذیر بنگالیوں کو شناختی کارڈ کا اجراء بھی ہونا چاہئے اور اسکے ساتھ ہی ان محصورین بنگلہ دیش کو بھی واپس لا کر شہریت دی جائے جو سالہا سال سے متحدہ پاکستان کے حامی ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ ہماری قومی حمیت و غیرت کا مسئلہ ہے۔ بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے متحدہ پاکستان کے حامیوں پر زمین تنگ کر رکھی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں درجنوں افراد سزائے موت پا چکے ہیں۔ ہمیں محصورین بنگلہ دیش کی واپسی کیلئے اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن