نئی دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی کی زیرصدارت مسئلہ کشمیر پر منعقدہ نام نہاد آل پارٹیز کانفرنس ناکام ہو گئی۔ اس کانفرنس میں بھارت نواز آٹھ پارٹیوں کے 14 رہنمائوں نے شرکت کی جبکہ کانفرنس میں کشمیریوں کی اصل نمائندہ حریت قیادت کو نظرانداز کردیا گیا۔ کانفرنس میں کشمیری کٹھ پتلی لیڈران عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی بھارت کی کشمیر پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے کہا کہ کشمیریوں کا بھارت کے ساتھ اعتماد ٹوٹ چکا ہے‘ کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی تک ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ وادی میں نئی حلقہ بندیاں ہمیں قبول نہیں۔ اسی طرح سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کانفرنس میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانچ اگست کو غیرقانونی طریقے سے دفعہ 370 کو آئین سے حذف کیا گیا۔ ہم نے مودی سے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارت اور بات چیت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہم نے کشمیر کی جیلوں سے قیدیوں کی رہائی‘ دفعہ 370 کی بحالی اور پاکستان سے مذاکرات پر زور دیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں انتخابات کے بعد کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
حریت قیادت کی جانب سے اس کانفرنس کے حوالے سے بجا طور پر باور کرایا گیا کہ بھارتی وزیراعظم مودی کی طرف سے نئی دہلی میں اپنے سابقہ حاشیہ برداروں کے ساتھ کل جماعتی اجلاس کے نام پر رچایا جانے والا ڈرامہ کشمیروں کے زخموں پر نمک پاشی اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ انکے بقول مودی کشمیریوں سے غداری کی تاریخ دہرا رہے ہیں۔ حریت قیادت کے ترجمان کے جاری کردہ بیان کے مطابق کشمیریوں کے حقیقی نمائندوں کی شرکت کے بغیر تنازعۂ کشمیر کے حل کیلئے کوئی بھی ملاقات یا مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے۔ کشمیری عوام مودی پر اعتماد کرنے کو ہرگز تیار نہیں کیونکہ انہوں نے کشمیر کو آئین‘ جھنڈے‘ شناخت اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرکے اپنے زرخریدوں کی بھی تذلیل کی ہے جبکہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔
یہ امر واقعہ ہے کہ کشمیری عوام اپنی دھرتی کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اس جدوجہد میں وہ اب تک اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں جبکہ انکی مالی قربانیوں کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں جنہوں نے درحقیقت اپنا مستقبل قیام پاکستان سے بھی پہلے پاکستان کے ساتھ منسلک کرلیا تھا۔ اسی تناظر میں کشمیر اور پاکستان کے عوام کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ الحاق ہی کشمیریوں کی منزل ہے اور انکی اس منزل کا حصول ہی دراصل تکمیل پاکستان ہے۔ اسکے برعکس بھارت کی ہندو لیڈر شپ نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی اسکی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت کشمیر پر شب خون مار کر اسکے غالب حصے پر اپنا تسلط جمالیا اور اسے متنازعہ بنا کر اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد کے ذریعے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کرکے بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی۔ بھارت نے پہلے اس قرارداد کو تسلیم کیا اور پھر مختلف ہتھکنڈوں سے مقبوضہ وادی میں اپنا تسلط مضبوط بنانا شروع کر دیا جبکہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی بنیاد پر کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا اور اصولی موقف اختیار کیا کہ کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا ہے جس کیلئے بھارت سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرانا ضروری ہے۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قرارداد اور پاکستان کے موقف کو غیرمؤثر بنانے کیلئے اپنے آئین میں ترمیم کرکے دفعہ 370 شامل کی جس کے تحت اس نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دیکراسے باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا اور اسکے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی گردان شروع کر دی۔
اگر کشمیری عوام کو یہ بھارتی فیصلہ قبول ہوتا تو وہ کٹھ پتلی اسمبلی کے ہر انتخاب کے بائیکاٹ کا راستہ اختیار نہ کرتے اور نہ ہی وہ بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھتے۔ دہلی سرکار نے تو کشمیریوں کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے اور انکے حوصلے پست کرنے کا ہر حربہ اختیار کیا جبکہ کانگرس آئی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے تو کشمیر کو آئین کے تحت خودمختاری دینے کی بھی پیشکش کی جس کیلئے انہوں نے کشمیری نمائندہ جماعتوں کے لیڈران کو آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کیا مگر اس وقت بھارتی کٹھ پتلی کشمیری لیڈران بھی کشمیر کی خودمختاری کے عوض اسے بھارتی ریاست کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہ ہوئے جبکہ کشمیری حریت قیادت نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں کوئی کمی نہ آنے دی۔
دو سال قبل پانچ اگست 2019ء کو بھارت کی مودی سرکار نے مسئلہ کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کی نیت سے بھارتی آئین پرشب خون مارا اور اس میں مقبوضہ وادی کو خصوصی آئینی درجہ دینے والی دفعات 370‘ اور 35 اے بھارتی پارلیمنٹ کے ذریعے آئین سے حذف کرادیں جس کے بعد مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو جموں اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں باقاعدہ بھارت میں ضم کردیا اور اس کیخلاف کشمیریوں کا ممکنہ احتجاج روکنے کیلئے مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرکے اسے بھارتی سکیورٹی فورسز کے تسلط میں دے دیا۔ اس کرفیو کو آج 690 روز ہوگئے ہیں مگر کشمیری عوام ہر بھارتی سختی کو برداشت کرتے ہوئے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ انکی جدوجہد کی آج پوری دنیا قائل ہے۔ مودی سرکار نے اس عالمی دبائو کو ٹالنے کیلئے کشمیری لیڈران کو آل پارٹیز کانفرنس کا دانہ ڈالا مگر بھارتی کٹھ پتلی قیادت بھی کشمیر کی آزادی کے برعکس کوئی بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ اس طرح مودی سرکار کی کشمیریوں کو تقسیم کرنے کی سازش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ کشمیریوں کی منزل درحقیقت مقبوضہ وادی کی آئینی حیثیت کی بحالی نہیں بلکہ بھارتی تسلط سے آزادی ہے جس پر وہ کسی مفاہمت کیلئے تیار نہیں اور پاکستان کا بھی یہی دیرینہ اور اصولی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل یواین قراردادوں پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ہی بھارت نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کئے ہیں اس لئے جب تک کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا‘ علاقائی اور عالمی امن کا مستقل قیام ایک خواب ہی بنا رہے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے دورۂ جرمنی کے موقع پر گزشتہ روز جرمن وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران یہی باور کرایا ہے کہ عالمی امن خطہ کے دیرینہ تنازعات کے حل پر منحصر ہے۔ اس تناظر میں علاقائی اور عالمی امن کی خاطر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو بھارت پر دبائو ڈال کر یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ بھارت کی ہندو انتہاء پسند قیادت کے ہاتھوں امن کو لاحق خطرات ٹالے جاسکیں۔
مودی سرکار کی فلاپ آل پارٹیز کانفرنس
Jun 26, 2021