لاہور (اظہار الحق واحد) جوہر ٹاؤن دھماکے میں جاں بحق ہونے والے رکشہ ڈرائیور عبدالخالق اور بیٹے عبدالحق کو آبائی قبرستان پاکپتن میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ جبکہ سماعت سے محروم ہونے والی بیوہ صفیہ کو دوبارہ ہسپتال داخل کرا دیا گیا جہاں دوسرے وارڈ میں اس کا 11 سالہ بیٹا ناصر بھی زیر علاج ہے۔ صفیہ اپنے خاوند کی نماز جنازہ میں شامل ہونے کے لئے ہسپتال سے ایک دن کی چھٹی پر گئی تھیں تاہم بعد میں صفیہ کو دوبارہ جناح ہسپتال کی آرتھو وارڈ کے ٹراما سنٹر میں داخل کرادیا گیا ہے۔ عبدالخالق اپنی دو بیویوں کے ساتھ جوہر ٹاؤن میں رہائش پذیر تھا جبکہ عبدالخالق کی پہلی بیوی دونوں زخمیوں کی تیمارداری میں مصروف ہیں۔ حکومت کی جانب سے امداد کا اعلان کیا گیا تاہم ابھی تک کسی بھی قسم کی امداد نہیں مل سکی۔ رکشہ ڈرائیو عبدالخالق کے بھائی غلام مصطفی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے میرا بھائی دن رات محنت مزدوری کرکے بچوں کی پرورش کرنے کی کوشش کررہا تھا، درندوں نے جان لے لی۔ حکومت بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے میرے بھائی عبدالخالق کی دونوں بیویوں کو مناسب روزگار دینے کا اہتمام کرے۔
لاہور (رپورٹ: رفیعہ ناہید اکرام) جوہر ٹاؤن بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے باپ بیٹے کے گھر تعزیت کیلئے آنے والے عزیزواقارب کے علاوہ ملحقہ گلیوں اور ارد گرد کے علاقوں سے خواتین سارا دن عبدالخالق اور عبدالحق کی تعزیت اور خیریت دریافت کرنے کیلئے پہنچتی رہیں۔ رکشہ ڈرائیور عبدالخالق زیر تعمیر گھرکے ایک حصے میں اپنی دو بیویوں صفیہ اور خورشید کے ساتھ چوکیدارکے طور پر رہائش پذیر تھا۔ عبدالخالق اپنے مرحوم برادر نسبتی کے دو بچوںکو بھی پال رہا تھا مگر اب ان یتیم بچوں کا سہارا بھی چھن گیا ہے۔ گھر کے سامنے ایک جھگی میں رہنے والی عبدالخالق کی کزن کنیز فاطمہ نے نمائندہ نوائے وقت کو زاروقطار روتے ہوئے بتایا کہ میرا بھتیجا عبدالحق یہیں اپنے گھر کے گیٹ کے قریب کھیل رہا تھا کہ دھماکہ ہوگیا، گھر ہی اجڑ گیا ہے، دھماکے سے مجھ پر، میری بیٹی اور بہو کے سر پر ہماری جھونپڑیاں گر گئیں۔ لوگوں نے آکر ہمیں نکالا۔ دوسری جانب دھماکے سے تباہ ہونے والے گھروں کے مکینوں اور علاقے کے لوگوں میں تاحال شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ کئی فیملیز اپنے تباہ شدہ گھروں کو چھوڑ کر اپنے عزیزواقارب کے ہاں چلی گئیں۔ گلی میں عمارتوں کے مکینوں کے زخمی دلوں کا احوال بیان کررہے ہیں۔ دھماکہ کی جگہ کے قریب تین چار گھروں کے گیٹ اکھڑ، بیرونی دیواریں گر گئی ہیں اور پورچوں میں کھڑی چار قیمتی گاڑیاں پچک گئی ہیں۔ گیس کے میٹر پگھل جانے کی وجہ سے گیس کی سپلائی بند ہے۔ جبکہ بجلی 48گھنٹوں کے بعد گزشتہ روز بحال ہوئی ہے۔ تباہ حال گھروں کی مکین خواتین شبینہ تبسم اور فرح بابر نے گلوگیر لہجے میں بتایا کہ شکر ہے ہماری جانیں بچ گئیں۔ عزیزواقارب ہمیں ساتھ لے گئے مگر گھر کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس حالت میں دیکھنا بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ ہم نے انتہائی محنت سے گھر بنوائے۔ دھماکہ سے گھروں کی بنیادیں تک ہل کر رہ گئی ہیں۔ ہم کہاں جائیں۔ خواتین اور بچوں نے بتایا کہ دھماکے کے وقت قیامت کا منظر تھا۔ ہم ابھی تک خوف کے مارے سو نہیں سکتے، سوئے ہوئے بچے ہڑبڑا کر اٹھ جاتے ہیں ۔ درایں اثنا عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر ممتاز مغل نے کہا کہ دھماکے سے جانی نقصان کے علاوہ آٹھ سے دس کروڑ کا مالی نقصان ہوا ہے مگر کوئی ان لوگوں کا پرسان حال نہیں، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت جلد از جلد متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرے اور انکے آنسو پونچھے۔