پی ایس ایل سے کمانے والے اور متنازع کے پی ایل!!!!!!

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کہتے ہیں کہ "ہم ریگولیٹری اتھارٹی ہیں، ڈسپلن کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں کوئی کوچ بات کرے تو اس کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ اگر آپ کرکٹ بورڈ کے ساتھ منسلک نہیں تو باتیں کریں لیکن ہم سے پیسے لیں اور نامناسب اور غیر ضروری بیانات دیں، تعمیری تنقید ضرور ہونی چاہیے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ڈسپلن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا"۔
بورڈ چیئرمین کو یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ پی سی بی فرنچائز مالکان اور آفیشلز کے بیانات روکنے کے لیے ایک نیا ضابطہ اخلاق بنانا چاہتا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں فرنچائز مالکان کی طرف سے اس نئے ضابطہ اخلاق پر مزاحمت کی گئی ہے۔ ایک طرف یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ پی ایس ایل کے دوران پالیسی کے حوالے سے کبھی گفتگو نہیں کی گئی البتہ لیگ ختم ہونے کے بعد کسی بھی فرنچائز سے منسلک سابق کرکٹرز اگر کہیں گفتگو کرتے ہیں تو انہیں کوئی کیسے روک سکتا ہے لیکن کرکٹ بورڈ بضد ہے کہ پہلے زبان بندی کو تحریری شکل دی جائے گی پھر بات آگے بڑھے گی۔ ممکن ہے کہ کوئی ضابطہ اخلاق تیار ہو بھی جائے، بورڈ طاقت استعمال کر بھی لے، بیانات کو وقتی طور پر روک بھی لیا جائے تو کیا حقائق چھپ جائیں گے، کیا سارے پاکستان کے سارے کرکٹرز بورڈ اور فرنچائز کے ملازمین کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے یقیناً بولنے والوں اور آئینہ دکھانے والوں کے لیے کوئی اور راستہ نکل آئے گا۔ جنہیں روکا جائے گا ان کی جگہ اور بولنے والے سامنے آئیں گے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ بورڈ حکام اپنے کام پر نظر دوڑائیں اگر بورڈ معاہدے کی پاسداری نہ کرے تو کیا یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہو گی، اگر بورڈ فرنچائز کے ساتھ معلومات و تفصیلات کا بروقت تبادلہ نہ کرے تو کیا یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟؟؟ کیا ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے۔ کرکٹ بورڈ اگر یہ سمجھتا ہے کہ فرنچائز مالکان یا ان کے آفیشلز بورڈ سے پیسے لیتے ہیں تو اس سوچ پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ فرنچائز مالکان بورڈ کے ملازم نہیں بلکہ شراکت دار ہیں، انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے مشکل وقت میں کرکٹ بورڈ کی مدد کی ہے۔ یہ لکھتے لکھتے کسی سے رائے لینے کے لیے فون کیا تو جواب میں شاعر عوام، شاعر انقلاب حبیب جالب کا یہ شعر سننے کو ملا۔
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ دے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
جنہیں فون کیا انہوں نے کہا کہ وقت ثابت کرے گا کہ کون طاقت کا ناجائز استعمال کر رہا تھا۔ جب میں نے حبیب جالب کا شعر سنا تو احمد فراز یاد آئے، احمد فراز کہتے ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمھارے ساتھ ہے کون؟?آس پاس تو دیکھو
تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
تو یہ جواب ہے میرا مِرے عدو کے لیے
مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
مِرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مِرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مِرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مِرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
مِرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مِرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے
مِرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مِرا قلم تو عدالت مِرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مِرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
پاکستان کرکٹ بورڈ ضابطہ اخلاق کے نام پر کھیل سے جڑے لوگوں کی زباں بندی تو کر سکتا ہے لیکن سچ چھپایا نہیں جا سکتا، اگر بورڈ بہت اچھا کام کر رہا ہے تو بورڈ سے مالی فائدہ حاصل کرنے والے کیوں غلط بیانی کریں گے۔ دراصل یہ ضابطہ اخلاق صرف اور صرف اس سچ کو چھپانے کے لیے ہے جس کا سامنا آپ کرنا نہیں چاہتے۔ یاد رکھیں ہر صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے۔
دوسری طرف کرکٹ بورڈ چیئرمین نے کشمیر پریمیئر لیگ کے حوالے سے سامنے آنے والی شکایات کو جہاں پہنچانا چاہیے تھا وہاں پہنچا دیا ہے۔ گذشتہ کئی روز سے اس لیگ کے حوالے منفی باتیں سننے کو مل رہی تھیں، لیگ کے مالی معاملات پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔ ان حالات میں این او سی کے لیے بھی کام جاری تھا۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین میز راجہ کہتے ہیں کہ لیگ کی چار فرنچائز نے تحریری طور پر شکایت کی ہے۔اب بورڈ کا اصل امتحان لیگ کے لیے این او سی ہے۔ سینئر سپورٹس جرنلسٹ، اینکر مرزا اقبال بیگ کہتے ہیں کہ "کشمیر کے نام پر پیسہ بنانے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔کرکٹ بورڈ کو این او سی دینے سے پہلے دیکھنا ہو گا کہ یہ لیگ کشمیر کاز کیلئے کرائی جارہی ہے یا اپنی جیبیں بھرنے کیلئے۔ کشمیر کے نام پر کرپشن سے بین الاقوامی سطح پر اس کے کاز کو نقصان پہنچے گا۔"
کشمیر میں کرکٹ کی بہتری کے حوالے سے پہلے بھی لکھا جا چکا ہے۔ دراصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کشمیر پریمیئر لیگ کا مطلب ہے کشمیر کی لیگ یا کشمیریوں کے لیے لیگ۔ جب اس طرح کا بیانیہ سامنے آتا ہے تو پھر معاملے کی حساسیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس طرح کے پی ایل منتظمین بیانات دیتے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ کشمیر اور کرکٹ کے نام پر لوگوں کو جذباتی کر رہے ہیں۔ کرکٹ کے حوالے سے کسی بھی ٹورنامنٹ کو بین الاقوامی سطح پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی کسی بھی لیگ سے اگر دنیا میں منفی پیغام جاتا ہے تو اس نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا۔ ہمیں کسی نقصان کا انتظار کرنے کے بجائے نقصان سے بچنے کا انتظام کرنا چاہیے۔ویسے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کہتے ہیں کہ بورڈ کو "صرف پی ایس ایل پر توجہ دینی چاہیے، پی ایس ایل کی موجودگی میں مقامی سطح پر ہونے والی ٹونٹی ٹونٹی لیگز کی حوصلہ شکنی اور پی ایس ایل کو بہترین لیگ بنانے کے لیے مکمل توجہ، یکسوئی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔"

ای پیپر دی نیشن