وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کود رپیش مسائل کے حل معیشت کے استحکام اور ملک کو آگے لے جانے کے لئے گرینڈ ڈائیلاگ کو ناگزیر قرار دیا ہے ۔ معیشت اور ترقی پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ، صحت تعلیم اور ایسے دیگر شعبوں پر کوئی کمپرومائز نہیں ہونی چاہیے۔ ملک کو درپیش بحرانوں اور چیلنجوں کے مقابلے کے لئے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان گرینڈ مذاکرات کی جو تجویز دی ہے وہ قابل ستائش ہے۔دوسری جانب چین سے 2.3 ارب ڈالرکی معاونت سٹیٹ بینک کوموصول ہوگئی ہے، جس کے بعد زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ ہوگیا۔چین سے 15 ارب آربی ایم (2.3 ارب ڈالر) کی معاونت سٹیٹ بینک کوموصول ہوگئی ہے،اس سے زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان اورچینی بینکوں کے کنسورشئیم نے پہلے سے اس ضمن میں معاہدے پردستخط کئے تھے۔ادھرتمام صنعتوں پر4 فیصدکا سپرٹیکس عائد ہوگا تاہم 13 صنعتوں پر10 فیصدکی شرح سے سپرٹیکس کااطلاق ہوگا۔ ایک سال کی مدت کیلئے تمام شعبوں پر4 فیصدسپرٹیکس کااطلاق ہوگا ،13 مخصوص شعبے ایسے ہیں جن پرمزید6 فیصد(مجموعی طورپر10 فیصد) ٹیکس عائد ہوگا۔ سپرٹیکس کے اطلاق کے بعد 13 صنعتوں کیلئے ٹیکسوں کی شرح 29 فیصد سے بڑھ کر39 فیصدہوجائے گی۔ سپرٹیکس کااطلاق بجٹ خسا رے کوروکنے کیلئے کیاگیاہے جو گزشتہ چار سال کے دوران ریکارڈ سطح پررہا۔اس حوالے سے وزیر خزانہ و ریونیو مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت نے مشکل فیصلوں کے ذریعے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے، سابق حکومت نے جاری مالی سال کے لئے پانچ سو ارب روپے کی سبسڈی مقرر کی تھی لیکن اسے 1500 ارب روپے تک بڑھادیا گیا۔ ایک پیسے کی سستی ایل این جی نہیں خریدی گئی۔ اس سال پرائمری خسارہ 1600 ارب روپے آیا ہے اگلے سال اسے 153 ارب روپے فاضل کیا جائے گا، مجموعی بجٹ خسارہ بھی کم کیا جائے گا، 15 کروڑ سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر ایک فیصد، 20 کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں کو دو فیصد، 25 کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر 3 فیصد اور 30 کروڑ سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا، ٹیکسوں کے اہداف میں اضافہ کردیا گیا ہے، اب 7004 کی بجائے ٹیکسوں کا ہدف 7470 روپے ہوگا، نان ٹیکس ریونیو کو 2 ہزار ارب روپے سے کم کرکے 1935 ارب کردیا گیا ہے۔
صوبوں کو اب 4373 ارب روپے دیں گے،ان تمام اخراجات کے بعد 4547 ارب روپے کا خسارہ ہوگا، 300 مربع فٹ جیولرز کی دکان پر 40 ہزار روپے کا فکس ٹیکس لگایا گیا ہے جبکہ بڑی دکانوں پر 17 فیصد کی بجائے 3 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہوگا، عام شہری سونا بیچنے پر جو 4 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس دیتے تھے،اسے کم کرکے ایک فیصد کردیا گیا ہے۔اسی طرح وہ عام شہری سونا بیچنے پر جو 4 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس دیتے تھے، اسے کم کرکے ایک فیصد کردیا گیا ہے۔
گھر، ریسٹوران اور کار ڈیلرز کے لئے خصوصی سکیم لا رہے ہیں، کار ڈیلرز کی تجاویز پر اس شعبے کے لئے ٹیکس عائد کریں گے۔ ٹیکس آمدن پر ہوگا اخراجات پر نہیں۔ حکومت اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ عام آدمی کو ریلیف دیا جائے اور ان پر بوجھ کم سے کم کیا جائے، بی آئی ایس پی کے 80 لاکھ رجسٹرڈ لوگوں کو جون میں اضافی دو ہزار روپے ماہانہ سبسڈی دی گئی ہے، اس کے علاوہ جن کی 40 ہزار روپے سے آمدنی کم ہے انہیں دو ہزار روپے ماہانہ دیئے جائیں گے۔اس سکیم کے تحت اب تک 40 لاکھ لوگوں نے اپنی رجسٹریشن کرائی ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن پر آٹا، گھی، چینی اور دیگر اشیاء سارا سال سستا دیا جائے گا۔ اس سال ہمیں اس کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو استحکام کی پٹڑی پر ڈالا جاسکے۔ رواں سال صرف بجلی کے شعبے میں 1600 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ 1100 ارب روپے براہ راست سبسڈی میں دیئے گئے جبکہ 500 ارب روپے کا گردشی قرضہ بڑھا۔ سب کو ملک بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔عمران خان پہلے ڈیڑھ لاکھ روپے تک ٹیکس دیتا تھا لیکن توشہ خانے کی اشیاء بیچنے کے بعد ان کی آمدنی بڑھی ہے اور اب وہ 98 لاکھ روپے ٹیکس دے رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ اور برآمدات کا فروغ ہماری ترجیح ہے، اس ضمن میں آئی ٹی پر ودہولڈنگ ٹیکس اور سٹیٹمنٹ کی شرط ختم کردی گئی ہے، اسی طرح وینچر کیپٹل پر ٹیکس ہٹا دیا گیا ہے، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا ٹیکس دوبارہ اعشاریہ پانچ فیصد کردیا گیا ہے۔ وہ اوورسیز پاکستانی جن کے پاس نائیکوپ ہے لیکن وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں، انہیں فعال ٹیکس گزاروں میں شمار کیا جائے گا۔ کیپٹل گین کی شق بحال کردی ہے۔ پلاٹوں کی آمدن پر جو ٹیکس عائد ہے ان میں سے شہداء کے خاندانوں اور زخمیوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔موجودہ بجٹ میں کسی حد تک غریبوں کو ریلیف دیا گیا اور صنعتی مالکان اور ملک کے اشرافیہ پر ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ زرعی آلات پر ٹیکس فری اور زمینداروں کی چیزوں پر ٹیکس ختم کر نے سے ملک میں زراعت کو فروغ حاصل ہو گا کیونکہ ملک کی زیاد ہ تر معیشت زراعت پر ہی مشتمل ہے۔