حکومت کا ترمیمی فنانس بل اور مافیاز کے عزائم

Jun 26, 2022

آئی ایم ایف کی شرائط کی بنیاد پر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ اور بجلی پر سبسڈی کے خاتمہ سے عوام پر بڑھنے والے مہنگائی کے بوجھ پر عوامی اضطراب کو پیش نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی سے متمول طبقات بشمول صنعت کاروں اور تاجروں کی جانب منتقل کرنے کا اقدام اٹھالیا ہے۔ اس سلسلہ میں قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے فنانس بل میں ترمیم کی گئی ہے اور 13 صنعتوں کے 30 کروڑ روپے سے زیادہ منافع کمانے والے اداروں اور کمپنیوں پر دس فیصد کی شرح سے سپرٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے۔ ان صنعتوں اور کمپنیوں میں چینی‘ سیمنٹ‘ سگریٹ، کھاد‘ ٹیکسٹائل‘ بنکوں اور ایئرلائنز کے علاوہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں‘ سٹیل‘ آئل‘ آٹوموبائل‘ ایل این جی‘ ٹرمینلز اور کیمیکل انڈسٹری بھی شامل ہے۔ ان اداروں اور کمپنیوں پر سپرٹیکس صرف ایک بار لگایا جارہا ہے۔ اسی طرح 15 تا 30 کروڑ روپے سے زائد کمانے والوں پر چار فیصد محصول لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور چار سو ارب روپے سے زیادہ کی اس نئی ٹیکسیشن میں ایک لاکھ روپے تک ماہانہ آمدنی پر ٹیکس کی چھوٹ کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ 
ترمیمی فنانس بل میں کھل‘ کاٹن‘ کیک پر جی ایس ٹی ختم کر دیا گیا ہے۔ سول و فوجی ملازمین کے پلاٹوں پر کیپٹل گین ٹیکس کی چھوٹ بحال کر دی گئی ہے۔ تین سو فٹ جیولرز شاپ اور دوسری چھوٹی دکانوں سے بھی 40 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے تین فیصد کر دی گئی ہے اور پرائمری خسارہ منفی سے نکال کر 153 ارب روپے مثبت کر دیا گیا ہے۔ ترمیمی بل کے تحت ماہانہ ایک لاکھ سے تین لاکھ روپے تک کی تنخواہ پر 12 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ وزیراعظم شہبازشریف کے بقول امیروں سے لے کر غریبوں پر خرچ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ان اصلاحاتی اقدامات سے ہم شارٹ ٹرم مشکلات سے نکل آئینگے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ کیلئے بجٹ میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ اب مجموعی ٹیکسیشن آٹھ سو ارب روپے کے قریب ہوگئی ہے۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام کے روزافزوں غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کی بنیاد پر پی ٹی آئی حکومت کو وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے فارغ کرانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی قیادتوں نے اصلاح احوال کے کسی ایجنڈے کی بنیاد پر ہی خود اقتدار میں آنا قبول کیا تھا چنانچہ موجودہ مخلوط حکومت کو درپیش اولین چیلنج عوام کو بالخصوص مہنگائی سے نجات دلانے کا تھا مگر اس حوالے سے سابقہ حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا بیل آئوٹ پیکیج کا معاہدہ آڑے آگیا جو پی ٹی آئی حکومت نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کو بھانپ کر معطل کر دیا اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ تین ماہ کیلئے منجمد کر دیئے تاکہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں آئی ایم ایف کا سارا نزلہ نئی حکومت پر آئے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آئی ایم ایف نے پاکستان کی اگلی قسط روک کر معاہدے کی بحالی کیلئے بعض نئی شرائط بھی عائد کیں جن پر عملدرآمد کی موجودہ حکومت کو مجبوری لاحق ہوئی تو پٹرولیم مصنوعات کے نرخ یکے بعد دیگرے 75 روپے فی لٹر تک بڑھنے اور اسی طرح بجلی کے بلوں پر سبسڈی ختم ہونے کے نتیجہ میں عوام مہنگائی کے نئے سونامی کی زد میں آگئے۔ اس طرح حکومت کے انہیں غربت مہنگائی کے مسائل سے نجات دلانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بدقسمتی سے عوام کو زندہ درگور کرنیوالے حکومتی اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف ابھی تک مطمئن نہیں ہوا اور اسکے ڈومور کے تقاضے برقرار ہیں۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کا معاہدہ بحال ہونے کیلئے پرامید ہیں تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کی جانیوالی مزید شرائط پر عملدرآمد کی صورت میں حکومت کو سخت عوامی ردعمل کا سامنا ہوگا اور اس کیلئے آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانا مشکل ہو جائیگا۔ چنانچہ اس صورتحال کو بھانپ کر حکومتی اتحادی قیادتوں نے باہم مشاورت سے متمول طبقات کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ میں لانے اور عام آدمی کو ٹیکسوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت 2022-23 کے فنانس بل میں ترمیم کی گئی ہے۔ اسکے تحت بڑے بڑے صنعت کاروں‘ تاجروں اور 35 کروڑ روپے تک کی آمدنی حاصل کرنیوالے دوسرے متمول طبقات پر صرف ایک بار کی بنیاد پر دس فیصد سپرٹیکس عائد کیا گیا ہے اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کیلئے جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے تین فیصد کردی گئی ہے۔ 
حکومت کی جانب سے تو اپنے طور پر مہنگائی میں ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے مگر ناجائز منافع خوری کے عادی صنعت کاروں اور تاجروں کو حکومت کے عوام کو ریلیف دینے والے اقدامات یقیناً ناگوار گزر رہے ہیں جو ان حکومتی اقدامات کی مزاحمت کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے صنعتیں بند کرنے اور اپنی مصنوعات کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں۔ اس کیلئے لامحالہ پی ٹی آئی کے قائدین بھی انہیں اکسا رہے ہیں جس کا اندازہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ سپر ٹیکس عائد کرکے حکومت نے ملک میں سری لنکا جیسے اقتصادی اور مالی بحران کا راستہ کھول دیا ہے۔ اسی طرح ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی‘ سابق صدر وفاق ایوان ہائے چیمبرز آف کامرس اور چیئرمین ایپٹما نے بھی سپرٹیکس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حکومتی اقدام سے برآمدات اور روزگار کو نقصان پہنچے گا۔ 
اس صورتحال میں اپنی شتربے مہار آمدنی میں کٹوتی سے ناخوش طبقات مختلف ہتھکنڈوں سے حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرینگے اور اپنی ناجائز منافع خوری کی عادت کی بنیاد پر اس ٹیکس کا رخ بھی اپنی مصنوعات کے نرخوں میں من مانا اضافہ کرکے عوام کی طرف موڑنے کی کوشش کرینگے۔ انکے منافع کی پہلے ہی کوئی حد نہیں اور وہ پٹرولیم نرخوں میں بے ہنگم اضافے کی آڑ لے کر عوام کے زیراستعمال اشیائے خوردونوش کی قیمتیں پہلے ہی آسمان تک پہنچا چکے ہیں جبکہ عوام میں اب مہنگائی کا مزید بوجھ برداشت کرنے کی عملاً سکت ہی نہیں رہی۔ اگر حکومت کے اصلاحی اقدامات کے ردعمل میں ناجائز منافع خوری کیلئے ایکا کئے بیٹھے مافیاز نے اپنی بلیک میلنگ پاور کی بنیاد پر خود پر پڑنے والے سپر ٹیکس کا رخ بھی عوام کی جانب مزید مہنگائی کی صورت میں موڑنے کی کوشش کی تو ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے عوام کی جانب سے بھی حکومت کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ حکومت کیلئے اب یہی بڑا چیلنج ہے کہ وہ مافیاز کی ناجائز منافع خوری روکنے کیلئے انتظامی مشینری کو متحرک کرے اور مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات سے اپنی اتھارٹی تسلیم کرائے۔ اگر حکومت کی جانب سے اس معاملہ میں کسی قسم کی کمزوری دکھائی گئی تو عوام کو ریلیف دینے اور مطمئن کرنیوالے اسکے سارے اقدامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔  

مزیدخبریں