حبیب جالب : جہدِ مسلسل کی علامت (4)

ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا میں عینی شاہد ہوں۔ اب اس کو ستاون سال بیت چکے ہیں۔ جیسا جذبہ لوگوں میں میں نے اس وقت دیکھا بعد میں کبھی نظر نہیں آیا۔ لیکن اعلانِ تاشقند کے بعد وہ سوچ کی وحدت برقرار نہ رہی۔ غیرجذباتی انداز میں تجزیہ کیا جائے تو وہ پاکستان کے خلاف نہیں تھا لیکن اس کے بعد بھٹو نے لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ جیسے ہم نے جنگ میں جو کچھ جیتا تھا، اسے ایوب نے میز پر ہار دیا ہے۔ انھوں نے مختلف بیانات دے کر لوگوں کو یقین دلا دیا کہ اس معاہدے میں کچھ خفیہ شقیں ہیں جن کا راز میں بعد میں فاش کروں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی خفیہ شق نہیں تھی۔ جو کچھ تحریری معاہدے میں موجود تھا وہی اصل بات تھی مگر جذباتی قوم جو ایوب کے طویل اقتدار سے تنگ آئی ہوئی تھی بھٹو کی گرویدہ ہو گئی۔ آخر ایوب کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئیں لیکن جنرل الیکشن کے ذریعے اقتدار کا فیصلہ کرنے کی بجائے یحییٰ خان نے قبضہ کر لیا۔ ان کی حکومت کے تین سال بدترین آمریت کی نمایاں ترین مثال تھے۔ 1970ء میں عام انتخابات ہوئے لیکن اس کے نتائج پر عمل نہ کیا گیا۔ صدر یحییٰ خان اپنی ’درون خانہ سرگرمیوں‘ میں اتنے منہمک رہے کہ انھیں اس بات کا احساس تک باقی نہ رہا کہ ملک دو لخت ہو جائے گا۔ بھارت اس موقعے کی تلاش میں تھا اور اس نے پورا فائدہ اٹھایا۔ مغربی پاکستان کے لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ شمال سے چین کی مدد آنے والی ہے اور بحرہند میں امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا بھی پہنچ رہا ہے۔حالانکہ دونوں ملکوں نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا۔ مغربی پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں بدقسمتی سے یحییٰ حکومت کے حق میں رہیں۔ البتہ قابلِ ذکر جماعتوں میں ولی خان کی نیپ نے حالات کو ٹھیک سمجھا لیکن پورے مغربی پاکستان میں اکثریت ان کے نقطۂ نظر کے حق میں نہیں تھی۔ یحییٰ کے دور میں بھی حبیب جالب کے ساتھ حکومت کا وہی رویہ لگا جو ایوب کے دور میں تھا کیونکہ جالب لوگوں کو ملٹری ایکشن کے خلاف انتباہ کرتا رہتا تھا۔ الیکشن کے بعد ڈھاکے میں قومی اسمبلی کا جو اجلاس 3 مارچ 1971ء کو بلایا گیا وہ بھٹو کی مخالفت کی وجہ سے عین وقت پر ملتوی کر دیا گیا۔ اس وقت جالب اپنی پارٹی کے دوسرے لیڈروں کے ساتھ ڈھاکے میں تھا۔ اجلاس کے التوا کے بعد ڈھاکے میں بنگالیوں نے جو احتجاج شروع کیا وہ اتنا شدید تھا کہ مغربی پاکستان واپس جانا بے حد مشکل ہو گیا۔ ان واقعات کو سامنے رکھ کر جالب نے چار مصرعوں کا ایک قطعہ بعنوان ’1971ء کے خون آشام بنگال کے نام‘ لکھا جو بعد میں بہت زیادہ ’کوٹ‘ کیا گیا:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
یحییٰ حکومت نے جالب گرفتار کر لیا۔ پھر وہ تھانوں، جیلوں اور عدالتوں کے چکروں میں پھنسے رہے۔ ان کے والد جیل میں ان سے ملے اور معافی مانگ کر رہائی کا مشورہ دیا۔ محمود علی قصوری نے بھی معافی مانگنے پر زور دیا اور انکار پر جالب کو ان کے والد کے سامنے غدار اور بنگلہ دیشی قرار دے دیا۔ جالب نے والد کو بڑے تحمل سے کہا کہ میں پندرہ بیس دن تک خود ہی رہا ہو جاؤں گا۔ 16 دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش کے نام سے ایک نیا ملک بن گیا اور جلد ہی جالب رہا ہو کر گھر آ گئے۔ اب باقی ماندہ پاکستان میں بھٹو برسرِ اقتدار آ گئے۔ شروع شروع میں جالب کا بھٹو کے بارے میں رویہ معتدل تھا۔ بھٹو نے اسے پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر جالب یہ سمجھتا تھا کہ بھٹو جس انداز سے پارٹی کی تشکیل کر رہا ہے اس کی روشنی میں یہ حقیقی عوامی پارٹی نہیں بن پائے گی۔ جالب کے بھائی سعید پرویز نے اس سلسلے میں ایک دلچسپی واقعہ تحریر کیا ہے:
’70 کلفٹن (کراچی) ۔۔۔۔ جالب صاحب موجود تھے۔ پیپلز پارٹی کے اکثر سینئر رہنما بھی موجود تھے۔ بھٹو صاحب نے جالب صاحب سے اپنا کلام سنانے کے لیے کہا۔ جالب صاحب نے اپنی مشہور نظم ’پاکستان کا مطلب کیا‘ سنائی۔ جب وہ ان مصرعوں پر پہنچے:
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکسان کا مطلب کیا
لا الہ الا اللہ
اسے سن کر سندھ کے ایک بڑے جاگیردار (جو پیپلز پارٹی کے سینئر عہدے دار بھی تھے) اٹھ کر چلے گئے۔ اس صورتحال میں بھٹو صاحب نے جالب صاحب کے کان میں کہا: یار جالب! موقع محل تو دیکھ لیا کرو۔ سندھ کا سب سے بڑا وڈیرا بیٹھا تھا اور تم نے کھیت وڈیروں سے لے لو پڑھ دیا۔ بھٹو صاحب کی بات کا جواب جالب صاحب نے بلند آواز میں دیتے ہوئے کہا، ’بھئی بھٹو! میرا پروگرام تو ’لے لو‘ ہی کا ہے۔ اب یہ تو میں نہیں کر سکتا کہ کوئی وڈیرا موجود ہو تو میں کہوں ’کھیت وڈیروں کو دے دو‘۔‘ (’حبیب جالب: شخصیت اور فن‘، اکادمی ادبیاتِ پاکستان اسلام آباد، صفحہ 144)
غرض بھٹو کے اقتدار کے چھ سال بھی جالب کے لیے ایوب اور یحییٰ کے ادوار سے کسی طرح بہتر نہیں تھے۔ بقول ان کے یہ نیا پاکستان تھا مگر اس کی سپرٹ پرانے پاکستان جیسی ہی تھی۔ مختصر یہ کہ سیاسی لیڈروں پر جیلوں میں تشدد، لیڈروں کا قتل، دو صوبائی حکومتوں کا خاتمہ، متفقہ نیا آئین منظور کراتے ہی بنیادی حقوق کی معطلی، آزادیِ تحریر و تقریر پر وہی پابندیاں، مستزاد یہ کہ اپوزیشن لیڈروں کے علاوہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کی تذلیل اور بہت سے دیگر اقدام تھے جن کی وجہ سے بہت سے لوگ بھٹو سے ناامید ہو گئے۔ اس دور میں جالب کے ساتھ وہی سب کچھ کیا گیا جو پہلے آمروں کے ادوار میں ہوا تھا۔ ان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے جواں مرگ بیٹے طاہر عباس کی رسمِ قل پر بیٹھے تھے۔ پھر پولیس کے ذریعے ہمہ وقت اس کا ناک میں دم کیے رکھا۔ اس کی تفصیل جالب کی کتاب ’جالب بیتی‘ میں موجود ہے اور آخر میں اسے بھی نیپ کے لیڈروں کے ساتھ حیدرآباد جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ کل پچپن افراد تھے جن میں بلوچستان کے مظلوم نوجوان طلبہ بھی تھے۔ ان کا مقدمہ سننے کے لیے ایک ٹربیونل بنا دیا گیا۔ ان قیدیوں کی سن گن لینے کے لیے حیدرآباد جیل میں ایک سخت جاسوسی نظام قائم کیا گیا۔ جیل کی دیواروں میں ریکارڈ کرنے والے خفیہ آلاتِ جاسوسی نصب تھے۔ جیل کے اندر ان لوگوں کی زندگی کی روداد پڑھ کر سجاد ظہیر، فیض اور ان کے ساتھیوں کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جسے میجر اسحاق نے ’زنداں نامہ‘ کے دیباچے میں تفصیل سے بتایا ہے۔ فیض جیل سے باہر آئے تو قوم کے لیے ’زنداں نامہ‘ کا تحفہ لائے تھے اور جالب رہا ہوئے تو انھوں نے قوم کو ’گوشے میں قفس کے‘ کا تحفہ دیا۔ جالب کے جیل کے ساتھی بھی کیا کیا لوگ تھے! قسور گردیزی، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، ولی خاں، معراج محمد خان، علی بخش تالپور، افضل خان وغیرہ۔ بالآخر جالب چودہ مہینوں کی قید کاٹ کر دو لاکھ روپے کی ضمانت پر رہا ہوئے۔ بھٹو اس رہائی پر ناخوش ہوئے۔ ٹربیونل کے جج اسلم ریاض حسین تھے جو مشہور شاعر تصدق حسین خالد کے فرزند تھے اور دیانت دار اور باوقار شخص تھے۔ بھٹو نے کسی سے کہا تھا کہ جالب کو غلط وقت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نیا الیکشن آنے والا ہے۔ یہ ہمارے لیے مصیبت بنے گا۔ ایوب کے دور میں نیلو کو زبردستی ایوانِ صدر میں لے جا کر شاہنشاہِ ایران کے سامنے رقص کرنے پر مجبور کیا گیا تو اس نے خواب آور گولیاں کھا کر خودکشی کی کوشش کی۔ اس پر جالب نے نظم لکھی تھی ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘۔ بھٹو کے دور میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ ایک ابھرتی ہوئی مشہور ادکارہ ممتاز کو کسی تقریب کے لیے لاڑکانے طلب کیا گیا۔ اس پر جالب نے ایک موثر نظم لکھی جس میں مستزاد کا ٹکڑا تھا ’’لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو‘‘ گویا ہمارے ہاں مختلف ادوار میں ایک جیسے واقعات کی تکرار ہوتی رہی ہے۔  (جاری)

ای پیپر دی نیشن