احمد ریاض، بڑا شاعر، عظیم انسان

Jun 26, 2022

استاد الاساتذہ محترم خواجہ محمد زکریا نے روزنامہ نوائے وقت کے شمارہ 12 جون میں ’’حبیب جالب، جہدِ مسلسل کی علامت‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں جناب احمد ریاض مرحوم کا سرسری ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں لائل پور میں ایک مظلوم شاعر احمد ریاض بھی تھا جو ہجرت کرکے چک جھمرہ میں آباد ہوگیا تھا۔ اخبار ’’غریب‘‘ کی ادارت کرتا تھا۔ معمولی معاوضہ پر ہر روز چک جھمرہ سے آتا جاتا، رات گئے تک اپنی ذمہ داری ادا کرتا اور آخر تپ دق کے مرض میں دنیا سے رخصت ہوا۔ جب اس کی عمر صرف پینتیس سال تھی۔ اس شہر کے بعض صحافیوں نے اس کے مرنے کے بعد شائع ہونے والا اس کا شعری مجموعہ بھی پاکستان دشمنی کا نعرہ لگا کر ضبط کرا دیا مگر حبیب جالب نے اس کا ساتھ دیا اور اس کے بارے میں ایک نظم لکھی جو برگ آوارہ میں شامل ہے۔ جس کا ایک شعر ہے۔
پہلے ہی اپنا کون تھا اے دوست
اب جو تو ہوگیا جدا اے دوست
 خواجہ محمد زکریا کے اس کالم نے احمد ریاض کی کئی یادیں ذہن میں تازہ کردیں۔ ریاض صاحب جب روزنامہ غریب میں کام کرتے تھے تو انہوں نے اخبار میں بچوں کے صفحہ کی روایت ڈالی اور بچوں کی ذہنی تربیت کے لئے بزم غریب قائم کی جس کے ہفتہ وار اجلاس غریب کے دفتر واقع کچہری بازار میں ہوتے تھے۔ ریاض صاحب کے اس تربیتی فیضان سے جن بچوں نے کسب فیض کیا اور بعد میں خوب شہرت حاصل کی ان میں پروفیسر ڈاکٹر صدیق جاوید (مرحوم و مغفور) پروفیسر جہانگیر عالم، میاں محمد ابراہیم طاہر ، صغیر احمد باقر اور یہ خاکسار بھی شامل ہیں۔ احمد ریاض کے انتقال پر منّو بھائی نے روزنامہ تعمیر راولپنڈی میں ’’احمد ریاض کی موت پر چند آنسو‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا، ان کی رحلت پر مجلس یادگار ریاض کے زیر اہتمام دھوبی گھاٹ کے میدان میں ایک پاک و ہند مشاعرہ بھی منعقد ہوا تھا جس میں برصغیر کے انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ انہوں نے پاکستان میں بننے والی ایک فلم میں اپنے ایک نغمہ کی رائیلٹی احمد ریاض کی بیوہ اور بیٹی کے لیے عطیہ کر دی ہے۔ اس طرح صدر ایوب خان ریل کے ذریعے جب رابطہ عوام مہم پر نکلے تو چک جھمرہ ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ان کی احمد ریاض مرحوم کی کمسن بیٹی سے ملاقات کرائی گئی جہاں صدر مملکت نے انہیں ایک لفافہ پیش کیا۔ اس ملاقات کا اہتمام صدر کے سیکرٹری مشہور ادیب جناب قدرت اللہ شہاب نے کرایا تھا جو احمد ریاض کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ خواجہ محمد زکریا نے احمد ریاض کے مجموعہِ کلام کی ضبطگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ مجموعہ کلام ’’موج خون‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ حال ہی میں بک ہوم کے مالک رانا عبدالرحمن نے یہ مجموعہ کلام دوبارہ بہت محبت اور محنت سے شائع کیا ہے۔ 
اب وہ مضمون پیش خدمت ہے جو میں نے احمد ریاض مرحوم کی رحلت پر ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ لائل پور میں لکھا۔
موت سے کس کومفرہے، ہر شخص کو آج نہیں تو کل موت کی آغوش میں جانا ہے۔ مگر بعض اموات واقعی اتنی المناک ہوتی ہیں کہ انسان ان کے وقوع پذیر ہونے پر لرز اٹھتا ہے۔ میں یہ تو نہیںکہہ سکتا کہ احمد ریاض کی موت بھی ایک ایسی موت تھی جس پر ہزاروں انسانوں کی آنکھیں پُرنم ہوگئیں لیکن میرا اپنا احساس یہ ہے کہ آسمانِ ادب و شعر کے اس سورج کو ابھی جگمگانا تھا، اس کی روپہلی کرنیں ہماری نظروں میں چکا چوند ضرور پیدا کررہی تھیں مگر یہ سورج ابھی نصف النہارپر نہیں پہنچا تھا۔احمد ریاض ایک شاعر ضرور تھا اور جو اس کے اشعار و نغمات پڑھتے رہے ہیں اس کی موت ان کے لئے واقعی صدمہ کا باعث تھی اور جن حالات میں اس نے دم توڑا تھا وہ تو اس سے ہماری ہمدردیوں میں اور بھی اضافہ کردیتے ہیں۔ احمد ریاض ایک شاعر نہ ہوتا اور اس نے کسی اخبار کی ادارت نہ بھی کی ہوتی مگر جن حالات سے گزر کر اس نے چارپائی پر ایڑیاں رگڑتے ہوئے جان دی ہے وہ اس کی مظلومیت کا احساس دلانے کے لئے کافی ہیں۔میرے دوست مجھے کہتے ہیں کہ احمد ریاض جو ایک عظیم شاعر تھا مر گیا۔ مگر ان دوستوں سے کون کہے کہ شاعر تو روز پیدا ہوتے رہیں گے مگر ایک انسان کی حیثیت سے احمد ریاض کا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا۔ احمد ریاض اپنی زندگی میں جن مصائب سے گزرا اور جس طرح اس نے مایوس کُن حالات میں زندگی سے نباہ کی کوشش کی اور اس کے قریبی لوگوں نے جس طرح اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا یہ اس کی زندگی کا ایسا دل خراش باب ہے جس کا ہر ورق ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ہم آج اس کی موت کا ماتم تو کرتے ہیں لیکن جب اسے ہماری مدد کی ضرورت تھی ہم نے اس کے زخموں پر کوئی پھاہا نہیں رکھا لیکن یہ بھی اس کی انسانی عظمت ہی کا ثبوت ہے کہ ہم آج اسے اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔
احمد ریاض کی شاعری کے بارے میں مختلف لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو اسے سر آنکھوںپر بٹھاتا ہے، اس کی شاعری کو وقت کی داستان قرار دیتا ہے اور اس کے خیال میں ریاض نظم کہنے والوں میں ایک لازوال مقام رکھتا تھا، مگر ایک طبقہ وہ بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ احمد ریاض کی شاعری شاعری ہی نہ تھی۔ یہ دونوں طبقے بڑے انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ حالاں کہ ایک کی بے پناہ عقیدت اور دوسرے کی نفرت نہ تو احمد ریاض کو کوئی عظمت بخش سکتی ہے اور نہ ہی اسے اسکے حقیقی مقام سے محروم رکھ سکتی ہے۔ (جاری) 

مزیدخبریں