منزل ادھوری ہے
کشتی اپنی پانیوں کے درمیاں
ساحل سے بہت دوری ہے ابھی
تقاضائے سفر یہی ہے
اور پیغام بھنور یہی ہے
میں دامن کافرش بچھاؤں
تم آنچل کو پتوار کرو
میں سفینے میں پانی بھرنے نہ دوں
تم نیا کا رخ بدلنے نہ دو
یوں مل کر بھنور پر وار کریں
عزم کی تلوار سے
مایوسی کا دامن تار تار کریں
اک بار تو دیکھو
اس پار تو دیکھو
وہ بے قرار ساون
وہ بدلتی رتیں
وہ چٹکتی کلیاں کھلتے پھول
منتظر ہیں جانے کب سے
کٹ جانے دو تلخ لمحے
پھر نام اپنے وہ بہارکرو
جنم جنم کا ساتھ رہے
پھر ہاتھوں میں اپنا ہاتھ رہے !!!
(داد صدیقی )