ایک مہینے کے صبر، مسلسل مذاکرات اور آئی ایم ایف کی شرائط کے بعد قرض ملنے کی امید تو پیدا ہوئی۔اب سوال یہ ہے کہ کہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے مالی امداد ملنے کے بعد پاکستان معاشی مشکلات سے باہر نکل آئے گا؟شائد معاشی مسائل کا فوری حل اس وقت کسی کے پاس بھی نہیں۔پٹرول،ڈیزل،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد مقامی انڈسٹری اور معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوں گی۔عالمی مارکیٹ میں توانائی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ہم مہنگا فرنس آئل افورڈ کرنے کے قابل نہیں ہیں جس کا نتیجہ لوڈ شیڈنگ کی صورت ہمارے سامنے ہے۔توانائی کی بچت کے لئے مارکیٹوں کی جلد بندش،ہفتہ وار دو چھٹیاں اور دیگر اقدامات سے شائید وقتی ریلیف تو مل جائے لیکن یہ مسئلے کا دیرپا حل نہیں۔اس وقت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ا مر یکہ ، بر طا نیہ ، یو ر پ ،جرمنی،ترکی،بھارت اور جاپان جیسی بڑی معاشی طاقتیں بھی توانائی کی بڑھتی قیمتوں اور معاشی بحران سے پریشان ہیں۔ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کی تمام سفارتی سرگرمیوں کا محور سستی توانائی کا حصول ہے۔دنیا بدل رہی ہے،عالمی سطع پر طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ماضی کے حریف قریب آرہے ہیں،اتحادی ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔سعودیہ عرب کے ولی عہد اور مستقبل کے شاہ محمد بن سلمان ترکی کے دورے پر ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن اگلے ہفتے سے سعودیہ عرب،اردن،عراق سمیت مشرقی وسطی کا دورہ کریں گے۔سعودیہ عرب اور اسرائیل قریب آرہے ہیں۔امریکہ چین پر لگی
تجارتی پابندیاں ہٹا دوطرفہ تجارت بڑھانے کا خواہش مند ہے۔
ان تمام سیاسی اور سفارتی بھاگ دوڑ کا ایک ہی مقصد سستی توانائی کا حصول۔دوسری طرف امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں کی وجہ سے روس بھی مارکیٹ میں تیل اور گیس کے نئے خریداروں کی تلاش میں ہے۔پاکستان میں بھی یہ بحث عروج پر ہے کہ اگر بھارت روس سے سستا تیل خرید سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟بھارت سستے روسی تیل سے کتنا فائدہ اٹھا رہا ہے؟پاکستان سستے روسی تیل سے کتنا فائیدہ اٹھا سکتا ہے؟پاکستان نے رواں سال 27 ارب ڈالر تک کی پٹرولیم مصنوعات امپورٹ کرنی ہیں۔اگر پاکستان روس سے 30 فیصد کم قیمت پر بھی سستا تیل امپورٹ کرتا ہے تو صرف پٹرولیم مصنوعات کے امپورٹ بل کی مد میں پاکستان کو 9 ارب ڈالر تک کی بچت ہو سکتی ہے۔روس یوکرین جنگ سے پہلے روس اپنی آئل ایکسپورٹ کا صرف ایک فیصد بھارت کو برآمد کرتا تھا جو اب 18 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔گزشتہ سال بھارت نے روس سے 3 ارب ڈالر کا تیل امپورٹ کیا تھا۔جبکہ فروری سے اب تک بھارت روس سے 18 ارب ڈالر کا سستا تیل امپورٹ کرچکا ہے یعنی ماضی سے 6 گنا زیادہ…یوکرین پر فروری میں روسی حملے کے بعد امریکہ نے یورپی ملکوں اور انڈیا سے کہا تھا کہ وہ روس کے تیل کا بائیکاٹ کریں۔ انڈیا پر کئی طرف سے دباؤ پڑ رہا تھا کہ وہ روسی تیل نہ خریدے لیکن انڈیا نے امریکہ اور یورپی ملکوں کی اپیل یہ کہہ کر مستر کر دی کہ پورپی ممالک روس سے کہیں زیادہ تیل خریدتے ہیں اور یہ کہ انڈیا تو صرف اپنی ضرورت کا دو فیصد تیل روس سے خرید رہا ہے۔امریکہ کی ناراضی کے باوجود روس سے تیل خریدنے میں انڈیا کو کوئی دشواری پیش نہیں آئی ہے۔ روسی تیل کی خریداری کے لیے دونوں ملکوں نے پیسے کی ادائیگی کے لیے ایک باہمی طریقہ کار وضع کیا ہے جس کے تحت کچھ ادائیگی روبل کے ذریعے،کچھ انڈین اشیا کی برآمدات کے ذریعے کی جاتی ہے۔جس وقت پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا اس وقت بھارت میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں سات سے 9 روپے کمی کی گئی تھی۔پاکستان کو بھی دنیا کے سامنے یہ باور کروانا ہوگا کہ اگر بھارت کواڈ جیسے عسکری اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے روس سے سستا تیل خرید سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟یوکرین پر روسی حملے کے باوجود اگر یورپی ممالک روس سے سستی گیس خرید سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟ہمیں سعودیہ،قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کو بھی باور کروانا ہوگا کہ پاکستان کی معیشت مہنگی انرجی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔دوست ممالک سے بجائے امداد لینے کے اگر ہم ڈیفر پیمنٹ پر سستے تیل اور گیس کا معاہدہ کریں تو ہماری معیشت کو اسکا طویل مدتی فائدہ ہوگا۔مہنگی انرجی کا مطلب پیداواری لاگت میں اضافہ جسکا نتیجہ برآمدات میں کمی کی صورت ہمیں دیکھنا پڑے گا۔اس معاشی بحران کے چکر سے مہنگائی اور بے روزگاری ہی جنم لے گی۔آئی ایم ایف کی شرائط اور ماضی کی بنسبت سخت ترین معاشی فیصلوں کے لئے دباؤ نے یہ تو واضح کردیا کہ سیاسی عدم استحکام کے معیشت پر بڑے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سخت معاشی فیصلوں کے ساتھ ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کو دل بڑا کرکے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر حکومت کی جگہ کوئی بڑے عوامی مینڈیٹ کی حکومت ہوتی تو آئی ایم ایف سے بہتر طریقے سے ڈیل کرتی۔آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوں یا دوست ممالک سے معاشی مدد کے لئے دوطرفہ مذاکرات فریش عوامی مینڈیٹ لازم ہے۔
’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘
Jun 26, 2022