حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمعیل ؑ اور اپنی اہلیہ محترمہ ہاجرہ کو بے آب وگیاہ مقام پر اللہ کے سپردکرکے جانے لگے تو پانی کا ایک مشکیزہ ان کیلئے چھوڑگئے ۔جب پانی ختم ہوگیا تو حضرت ہاجرہؑ کو تشویش لاحق ہوئی اور صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان بے تا ب ہوکر سرگرداں رہیں،اس دوران اپنے خلیل کے اہل خانہ کی بے تابی دیکھ کر اللہ کی رحمت جوش میں آگئی اور حضرت اسمٰعیل ؑ کے ایڑیاں رگڑنے سے چشمہ پھوٹ پڑا۔حضرت ہاجرہؑ نے زم زم کہہ کر اردگرد ریت کا بند باندھ دیا اور پانی کو بہنے سے روک دیا ۔حضورنبی اکرمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ’’ اللہ رحم کرے اُم اسمٰعیل ؑ پر اگروہ زم زم کو نہ روکتیں تو آج زم زم بہت بڑا بہتاہوا چشمہ ہوتا‘‘ ۔ عربی میں زم زم رُک جانے کو کہتے ہیں ۔اصطلاح ً زم زم اس متبرک پانی کو کہاجاتاہے جو حضرت خلیل اللہ ؑ کے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل کے بچپن میں ایڑیاں رگڑنے سے جاری ہواتھا۔جو ہزاروں سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود پہلے دن کی طرح جاری ہے ۔بنو جرہم کو جب نکالاگیا تو اُنہوں نے کنواں کاٹ کر اِس کا نام و نشان مٹادیاتھا۔حضور اکرم ؐ کے دادا عبدالمطلب نے خواب میں اشارہ پاکر آب زم زم کے کنوئیں کی صفائی کرائی تھی اس کے بعد خلیفہ مامون الرشید کے عہد میں بھی چاہ زم زم کی صفائی کرائی گئی تھی ۔297ھ909ء پانی کی سطح اچانک بلند ہوگئی اور پانی ابلنے لگاتھااور اُس وقت سے لے کر آج تک اس کا پانی کبھی ختم نہیں ہوایہ کنواں خانہ کعبہ کے مشرقی جانب تقریباً 20میٹر کے فاصلے پر ہزار ہاسال سے تشنہ بوں کو سیراب کررہاہے اور ماں بیٹے کی یاد تازہ کررہاہے۔شروع میں چاہ زم زم کے اوپر د ومنزلہ گنبد والی بڑی عمارت ہوتی تھی جس کے شمالی جانب باب شیبہ کی محراب ہوتی تھی اور مقام ابراہیم ؑ کے اوپر بھی ایک بڑی عمارت ہوتی تھی جس کے ساتھ ہی ایک لکڑی کا منبر ہوتاتھا جس کے اوپر چھت پڑی ہوتی تھی ۔کعبہ شریف کے بالکل قریب ان بڑی بڑی عمارتوں کی وجہ سے جگہ تنگ تھی اور طواف میں رکاوٹ پید اہوجاتی تھی 1377 ھ میں جب مطاف کی توسیع کے پہلے منصوبے پر سعودی فرمانرائوں نے عملدرآمد شروع کیاتو علماء کرام کے مشور ے سے طواف کرنے والوں کی سہولت کیلئے شیبہ دروازے کو ہٹادیاگیا بڑی عمارت کو ختم کرکے مقام ابراہیم ؑ کو کرسٹیل کے خوبصورت خول میں بند کرکے اصلی مقام پر رکھاگیا ،لکڑی کے منبر کو پیچھے منتقل کردیا گیا اور چاہ زم زم کی عمارت کو ختم کرکے تہ خانہ تعمیر کرکے اس کے اندر منتقل کردیاگیا تھا۔البتہ مطاف میں عین کنواں کے اوپر ایک گول نشان لگاکرا سکے اوپر بیئر زم زم لکھ دیاگیا اور بوقت ضرورت اس گول کالے سنگ مرمر کے ڈھکن کو کھولا بھی جاسکتاہے ۔زم زم کے بیسمنٹ کی چھت مطاف کے فرش کے بالکل برابر ہے جسکی وجہ سے بآسانی طواف کیا جاتارہا۔حرم شریف کی توسیع وترقی کا کام دن رات جاری رہاہے لیکن اس امر کا خاص طور پر خیال رکھا جاتاہے ک چاہ زم زم کسی طرح بھی توسیع حرم کے کام سے متاثر نہ ہو ۔یہ خانہ کعبہ کی طرف والی دیوار کو مضبوطی سے تعمیر کرکے اوپر سنگ مرمرکے پتھر لگادئیے گئے ہیںاور زم زم کے پورے تہ خانے کو مکمل ائر کنڈیشنڈ کردیاگیا ۔پانی کے استعمال اور اس کے فرش پر گرنے سے توویسے بھی تہ خانہ ٹھنڈا ہوجاتاہے اور اوپر سے ائرکنڈیشنڈ چلنے سے بے حد اور پرکیف سکون ملتاتھا۔تہ خانے کو دوحصوں میں تقسیم کیاگیاتھا جو حصہ عورتوں کی طرف تھاوہا ں سے ز م زم کا کنواں نظر نہیں آتاجبکہ مردوں والے حصہ میں سے کنواں صاف دکھائی دیتاتھا ۔پانی نکالنے کیلئے کنوئیں کے اندر جستی پائپ لگے ہوئے ہیں ۔چھت سے لے کر فرش تک پولسٹرین کی بڑے سائیز کی موٹی پلیٹ لگائی گئی ہیںجہاں سے اندر کا تمام حصہ بخوبی نظر آتاتھا۔اندر جانے کیلئے ایک مقفّل دروازہ نصب تھا،دیکھ بھال کیلئے ایک اسپریٹر ہر وقت موجود رہتاتھاجس کے پاس ٹیلیفون سیٹ وغیرہ رکھے ہوتے تھے ۔تہ خانے میں جانے کیلئے تقریباً 20سیڑھیاں اُترنا پڑتاتھا،ہر سیڑھی تقریباً2فٹ چوڑی اور تقریباً 21فٹ لمبی تھی ۔ دونوں تہ خانوں کے درمیان ایک دیوار حائل تھی مردوں والے حصہ کے اوپر ماء ۃ زم زم الرجال اور عورتوں والے حصے کے اوپر ماء ۃ زم زم النساء لکھاہوتاتھا۔مطاف میں تقریباً 6فٹ اونچی ایک حفاظتی دیوار تہ خانے کے تینوں جانب تعمیر کی گئی تھی اور اندر داخل ہونے کیلئے مشرقی حصہ کھلا ہوتاتھا، جس میں اُترتے وقت رُخ کعبہ شریف کی طرف ہوتاتھا۔سیڑھیوں والا حصہ تنگ مگر تہ خانے کا اندر کا حصہ شمالی جانب بہت کشادہ تھا۔سنگ مرمر کی تقریباً پانچ فٹ اونچی دیواروں میںکروم شدہ ٹونٹیاں لگی ہوئی ہوتی تھیں جن کو دبانے سے پانی اُچھل کرنکلتا اور بیسن میں گرتاتھا۔عموماً حجاج کھڑے ہوکر ہاتھوںمیں ڈال کر آب زم زم پیتے تھے اوربدن پر بھی ملتے تھے ۔پلاسٹک کے چھوٹے گلا س بھی بعض اوقات قریب رکھے ہوتے تھے اور کمپیوٹر کے ذریعے آب زم زم ٹھنڈا کرکے مہیّا کیا جاتاتھا۔2003ء تک یہ صورت برقرار رہی لیکن 2004ء میں تبدیلی کردی گئی ہے ۔تہ خانے کے باہر تینوں جانب جو 6فٹ حفاظتی دیوار بنی ہوئی تھی وہ ہٹادی گئی اور مشرقی جانب سے اترنے کیلئے جو سیڑھیاں تھیں وہ بھی ختم کرکے تہ خانے کے کھلے ہوئے حصہ پر چھت ڈال کر بند کردیا گیا ہے اور مطاف کے برابر کردیاگیا ہے جس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ تہ خانے کی حفاظتی دیوار اور راستے کی سیڑھیوں کی وجہ سے طواف کرنے والوں کو حج کے دنوں میں جو رکاوٹ پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی ہے ۔آج کل طواف کا گھیرا اگر زیادہ بھی ہوجائے تو رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی ،البتہ زم زم کے کنوئیں تک رسائی نہیں رہی ۔امید ہے سعودی حکام کنوئیں کی زیارت کیلئے ضروری کوئی راستہ کھولیں گے ۔ آب زم زم کے بارے میں فرمانِ نبویؐ ہے۔ 1۔دُنیا میں بہترین پانی زم زم کا ہے 2۔زم زم جس نیت سے پیا جائیگا اللہ تعالیٰ اس ارادے کو پورا کریگا بشرطیکہ ارادہ نیک ہو3۔پانی بیٹھ کر پینے کا حکم ہے مگر زم زم احتراماً کھڑے ہوکر پینا سُنت ہے ۔4۔آب زم زم پیٹ بھرنے والی غذا ہے اور بیمار کیلئے شفاہے ۔5۔جہنم کی آگ اور زم زم کا پانی دونوں شکم میں جمع نہیں ہوسکتے ۔6۔آب زم زم موجب برکت وشفاہے 7۔زم زم خوب پیٹ بھرکر پینا چاہئے8۔مومنوں اور منافقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ منافق زم زم پیٹ بھر کر نہیں پیتے ۔ پانی کا ذائقہ معمولی سانمکین ہے اور معمولی سی چکنا ہٹ بھی ہے ،اسکا ذائقہ خوشگوار ہے اور ہر قسم کے جراثیم سے پاک ہے ۔ پانی کبھی خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی بدبوآتی ہے۔آب زم زم کا ہزار ہاسال تک جاری رہنا اور اربوں انسانوں کا ہزار ہاسال سے اس سیراب ہونا ایک عظیم معجزہ ہے ۔اس متبرک پانی سے استنجا کرنا،بدن اور کپڑے سے بجاست دورکرنا منع ہے البتہ برکت کی نیت سے غسل یا وضوہوسکتا ہے ۔ سعودی فرمانراو شاہ خالد نے مشہور انجینئر یحیٰ کو شک کو اس پاکیزہ کنوئیں کی صفائی کا کام سونپا تھا پہلی دفعہ دو غوطہ خوروں کو چاہ زم زم کے اندر اتاراگیا ۔جدید کیمروں کی مددسے اندر کی تصاویر اُتاری گئیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق چٹانوں سے پانی کا چشمہ پھوٹا ہے اور ایک بڑی چٹان پر ’’باذن اللہ ‘‘کندہ ہے ان چٹانوں پر رنگ برنگ تہیں جمی ہوئی ہیں جن سے قدرتی طور پر فلٹر یشن ہوتی ہے۔ پتھروں کی رنگت بالکل نئے پتھروں کی طرح ہے ان پر پانی کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔
جس چٹان پر ’’باذن اللہ ‘‘کندہ ہے اس کی لمبائی 17میٹر ہے ۔ یہ تمام تصویر یں مووی کیمروں سے لی گئی تھیں ۔بعض مقامات پر پانی کا بہائو اتنا شدید تھا اور بخارات کی ایسی دھندتھی کہ کیمرے کی روشنیاں بیکار ہوجاتی تھیں او رسپیشل روشنیاں استعمال کرناپڑی تھیںپانی کے افراخ کیلئے چار بڑے پمپ استعمال کئے گئے مگر پانی کو نہ توڑ سکے ۔ غوطہ خور اندر داخل ہونے سے پہلے آب زم زم سے وضو کرکے غسل کرتے اور پھر اندر داخل ہوتے تھے یہ کام دو مرحلوں میں مکمل کیا گیا اور اسطرح کل سات ماہ خرچ ہوئے اوریہ کام 25.07.1399ہجری کو پایٔہ تکمیل کو پہنچا۔پانی کے منابع کا ایک رخ کعبہ کی اور دوسرا جبل ابو قبیس کی طرف تھا۔انجینئر یحیٰ کو شک کی رپورٹ کے مطابق اندر سے نکالی گئی مٹی وغیرہ سے کثیر تعداد میں قدیم حکومتوں کے سکے برآمد ہوئے تھے اوپر والے حصے میں بھر بھری مٹی پائی گئی اور اس کے بعد سخت تہیں پائی گئیں۔
۔اوپر کے حصے کی چوڑ ائی تقریباً ایک میٹر 46سنٹی میٹر سے لے کر ایک میٹر 93سنٹی میٹر تک پائی گئی ۔50سنٹی میٹر کا ایک حصہ ایساتھا جو چونے اور بعض دوسری دھاتوں سے مرکب نظرآتاتھا۔ یہاں چاروں طرف سے پانی رستا اور پھوٹتا ہے اس کے بعد 17میٹر لمبی اور ایک میٹر 80سنٹی میٹر چوڑی چٹان نظر آتی ہے جسکے نیچے پانی جمع ہوجاتاہے ۔ایک مصری ڈاکٹر کی ریسرچ کے مطابق آب زم زم میں یہ معدنیات پائی جاتی ہیں:۔می(1)کیلشیم سلفیٹ(2)سوڈیم سلفیٹ (3)سوڈیم کلورائیڈ(4)کیلشیم کاربونیٹ (5)پوٹاشیم نائٹریٹ اور(6)ہائیڈ روجن سلفر والا گویا انسان کے جسمانی نظام کو درست رکھنے اور مختلف بیماریوں کو دورکرنے کیلئے جتنی معدنیات مفید اور ضروری ہیں وہ سب زم زم میں پائی جاتی ہیں جو اس با ت کی تصدیق ہے کہ حضور ؐ کا یہ فرمان بالکل برحق ہے کہ زم زم ہر بیماری کیلئے شفا ہے یا ہر اُس مقصد کیلئے ہے جس کیلئے پیا جائے ۔زم زم قبلہ رخ کھڑے ہوکر بسم اللہ پڑھ کر پینا چاہئے ۔تین سانسوں میں جی بھرکے پینا چاہئے پھر الحمداللہ پڑھنی چاہئے ۔خادم الحرمین شریفین ملک فہد بن عبدالعزیز نے مسجد الحرام کے تمام حصوں بشمول اوپر کی منزلوں میں بھی ٹھنڈا پانی مہیّا کرنے کا معقول انتظام کیاہے ۔پہلے مرحلے میں پانی میں پمپ کرکے حرم شریف کے باہر باب الفتح کے سامنے ایک کولنگ سٹیشن تک پہنچایا جاتاہے دوسرے مرحلے میں پانی کو خصوصی فلٹر سے گزار کر بنفشی شعائوں کے ذریعے مصّفا اور جراثیم سے پاک کیا جاتاہے ۔تیسرے مرحلے پر خصوصی ٹینکوں سے گزار کر ایک خصوصی درجہ حرارت پر ٹھنڈا کیاجاتاہے پھر جستی پائپوں کے ذریعے باب القریش ،باب العرفات ، باب المنیٰ اور دوسرے مقامات تک پہنچا یاجاتاہے ۔آب زم زم ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک ہے اور عالمی معیارکے عین مطابق ہے اس کو ریڈیائی شعائوں سے اسلئے گزاراجاتاہے کہ کسی قسم کے جراثیم وغیرہ کا خدشہ نہ رہے ۔اس کی وجہ سے پانی کے ذائقہ پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ ۔ایک لیبارٹری آب زم زم کی روزانہ فراہمی کا جائیزہ لیتی ہے ہر روز ہزاروںٹن آب زم زم ٹینکروں کے ذریعے عازمین حج کیلئے مسجد نبوی پہنچایاجاتاہے اور کئی گنا زیادہ مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں جبکہ غیر ملکوں میں جو آب زم زم عمرہ اور حج پر آنے والے لے جاتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے ۔