حج کا پیغام

دنیا بھر کے مسلمان ذوالحج کا چاند نکلنے کے بعد ہر نماز کے بعد ’حاضر ہیں اے اللہ، ہم حاضر ہیں، سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں‘ کی صدائیں بلند کرنے لگتے ہیں۔ جو حج کے لیے زادِ راہ رکھتے ہیں وہ حجاز مقدس کو چل پڑتے ہیں لیکن جو حج کو نہیں جا سکتے لیکن قربانی کی طاقت رکھتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جانور قربان کرکے سنت خلیل کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے وہ پیارے پیغمبر ہوئے ہیں جنھیں اللہ نے شروع سے ہی آزمائش میں رکھا۔ آپ نے بچپن سے خود کو ہر طرح کے شرک سے محفوظ رکھا۔ پھر اس وقت جب آپ کا بیٹا بہت کم عمر تھا، اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلا م کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آئیے۔نہ آپ اور نہ آپ کی بیوی اس آزمائش سے گھبرائے بلکہ رضا الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا۔ معصوم اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے لیے حضرت حاجرہ صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے سات چکر لگاتی ہیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ آپ کے بیٹے کے پاؤں کے نیچے سے پانی اس تیزی سے نکل رہاہے۔ آپ بے ساختہ فرماتی ہیں، ’زم زم‘یعنی رک جا ،رک جا۔ کچھ وقت گزرتا ہے تو اللہ کی حکمت سے اس ویران آبادی میں قافلے رکنے لگتے ہیں ۔شہر آباد ہونے لگتا ہے ۔اللہ اپنے خلیل کو خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلا م اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اللہ کے حکم پر اللہ کا گھر تعمیر کرتے ہیں اور شیطان کو سامنے دیکھ کے کنکر مارتے ہیں ۔
قربانی کے بارے گفتگو کرتے ہوئے علما فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دس دن خواب آتا رہا ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی پیاری چیز قربان کیجیے۔ آپ پہلے مختلف جانور قربان کرتے ہیں۔ پھر آخر میں واضح اشارہ ہوتا ہے کہ اے خلیل، اپنے پیارے بیٹے کو رب کی راہ میں قربان کیجیے۔ آپ اپنے بیٹے کو خواب کی تفصیل بتاتے ہیں۔ بیٹا جانتا ہے کہ باپ اللہ کا نبی ہے اور نبی کا خواب کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے اس لیے باپ بیٹا یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا رب ان سے کتنی قیمتی قربانی طلب کر رہا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے باپ سے عرـض کرتے ہیں کہ آپ کا دل بہت نرم ہے آپ سے بیٹے کی گردن پہ چھری چلانی مشکل ہوجائے گی، اس لیے آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کے چھری چلائیے اور رب کے حکم کی بجا آواری کیجیے۔ سب امتحانوں سے گزرنے کے بعد اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ ہم نے آپ کو دنیا بھر کے لوگوں کا رہنما بنا دیا۔ آپ نے فوری عرض کی، الٰہی، میری اولاد کے لیے بھی یہ فضلیت ہوگی تو اللہ پاک نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اس کا وعدہ ظالموں کے لیے نہیں ہے۔ آج مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور عیسائی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کا سچا نبی مانتے ہیں ۔ اللہ پاک کو حضرت حاجرہ کا صفا و مروہ کا طواف، زم زز م پانی پینا، باپ بیٹے کا شیطان کو کنکر مارنا پھرقربانی یہ سب عمل اتنے پسند آئے کہ قیامت تک اپنے محبوب نبیﷺ کی امت کے لیے اس سنت کے ادا کرنے کو اسلام کا اہم رکن بنا دیا۔
 ایک مسلمان کے طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارا مہربان رب ہم سے چاہتا کیا ہے ۔ہم نماز کے جو لفظ گھر میں پڑھتے ہیں جب وہی لفظ مسجد میں امام صاحب کے ساتھ ادا ہوتے ہیں تو نماز کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ جمعہ کے دن جب مسلمان کسی بڑی مسجد میں اکٹھے ہوتے ہیں تو جمعہ کا ثواب عام نمازوں سے کہیں زیادہ بیان ہوتا ہے۔ پھر جب مسلمان حج کرتا ہے تو اس کی مثال ایسے بیان کی گئی ہے جیسے وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہواہو۔ مالدار انسان کے لیے حکم ہے کہ سال بعد اپنے مال کی زکوٰۃ سے غریب مسلمانوں کی مدد کرے۔ صدقہ فطر عید سے پہلے پہلے ادا کرنے کا کہا گیا ہے تا کہ غریب مسکین مسلمان بھی عید کی خوشیاں منا سکیں۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرو۔ ایک خود کھاؤ،دوسرا رشتہ داروں کے لیے اور تیسرا پھر غرباء کے لیے ۔یہی اسلام کے ہر عمل کی حکمت ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے باخبر ہوں۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے محلے داروں سے، جمعہ پڑھنے والے، گاؤں، قصبہ اور شہر والوں سے اور حج کا فرض ادا کرنے والے مسلمان ساری دنیا کے مسلمانوں سے رابطہ بنائیں۔ یہی حج کا پیغام ہے، یہی رب کی منشا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کی مدد کرنے والے بن جائیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے والے بن جائیں۔ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے حج کے لیے آئے، مسلمانوں سے تعلق استوار کریں ۔افسوس آج کے مسلمان مکہ جا کے عبادت تو کرتے ہیں لیکن حج کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے عالمگیر بھائی چارے کے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج کا مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت تو پورے ذوق و شوق سے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس آفاقی پیغام کو بھلا چکا ہے جو حج کا مقصد ہے۔ مسلمانوں کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبے کی قربانی تو یاد ہے لیکن باپ بیٹے کی گفتگو اور اس کا مطلب و مفہوم جاننے ،سمجھنے اور عمل کرنے والے بہت کم ہیں ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن