اچھی کتابیں ، موسیقی اور حسن ہی ہماری ناپائیدار زندگی کی خوبصورتی ہے جبکہ بھوک ننگ اور بے گھری قیامت سے بہت پہلے جیتے جی دوزخ کا عذاب۔ نامور قانون دان اور کالم نگار بابر اعوان کی پچھلے دنوں شائع ہونے والی کتاب ’رجیم چینج اور توہینِ مملکت‘ سے ایک واقعہ پڑھ کر کانپ گیا ہوں۔ اگر آپ اپنا بدصورت، کھردرا، بغیر میک اپ کے قومی چہرہ دیکھنے کی سکت رکھتے ہیں تو کالم پڑھنا جاری رکھیے۔انھوں نے لکھا ہے :’جنرل حامد بلوچستان میں کور کمانڈر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے عوامی بدحالی کی ایسی دلخراش داستان چھیڑی کہ کلیجہ منہ کو آگیا۔ کہنے لگے :خبر ملی کہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں وبا کی طرز پر لوگ بڑی تعداد میں دو بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پہلی جلدی امراض اور دوسری سینے کی تکلیف ۔ جنرل حامد نے فوری طورپر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور دوسرے انتظامی محکموں کو بلالیا۔ میٹنگ میں یہ دلخراش انکشاف ہوا کہ ان بیماریوں کا سبب کھانسی کے شربت کا بکثرت استعمال ہے۔ مزید پتا چلا کہ دیہات کے غریب لو گ پتھر کے توے پر روٹی پکاتے ہیں ۔ سالن بنانا ایفورڈ نہیں کر سکتے ۔ اس لیے سرکاری ہسپتال سے کھانسی کا شربت لے کر اس سے روٹی کھاتے ہیں۔‘ جنرل حامد کی زبانی روح کو لرزا دینے والی انسانی المیے کی کہانی نے غربت کا یہ نوحہ یاد کروادیا۔
ہکناں نوں توں ایہناں دیویں بس بس کرن زبانوں
ہکناں نوں تو ں کجھ نہ دیویں ایویں جان جہانوں
پنجابی زبان کے اس کا شعر کا لہجہ اور ذائقہ غمازی کرتا ہے کہ یہ شعر کھڑی شریف کے عارف کے تبرکات میں سے ہے ۔ میاں محمد بخش ماہر اقتصادیات نہیں تھے۔ انھوں نے سیدھے سادے انداز میں جیسے دیکھا سمجھا لکھ دیا۔مرحوم امجد اسلام امجد اور طرح کی بات کر گئے ہیں۔ آج کا ذہن خوب سمجھتا ہے کہ یہ غربت کیوں ہے ؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟یہ دولت کی فراوانی کیسے ہے؟
خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پہ کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے مگر یہ بانٹنے والے
اس تازہ خبر سے اس شعر کا مفہوم اور واضح ہو جاتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستیں فوری سماعت کے لیے مقرر ہو گئی ہیں۔ درخواست گزاروں میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، عمران خان اور اعتزاز احسن بھی شامل ہیں ۔ان کی سماعت کے لیے نورکنی بنچ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے جو اب سات رکنی رہ گیا ہے ۔ اسی عدالت میں زرعی اصلاحات کی درخواست گزشتہ چودہ برس سے سماعت کی منتظر ہیں۔ اس کی سماعت کے لیے نہ ہی کوئی بنچ تشکیل دیا گیا اور نہ ہی کوئی تاریخ مقرر کی گئی۔ کیا جناب عابد منٹو کی یہ رٹ عوامی اہمیت کی حامل نہیں ؟ پچھلے دنوں فیس بک پر لاہور کے نواحی علاقہ میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے بنائے ہوئے ایک اسکول کی وسیع و عریض ، پروقار عمارت دیکھنے میں آئی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب کے خود اپنے پوتے پوتیاں اور شاید نواسے نواسیاں بھی اسی رفاہی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ کسی روز فرصت میسر آئی تو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعدوہ اسکول دیکھنے ضرور جائوں گا۔جسٹس صاحب سے یہ بھی پوچھوں گا کہ انھوں نے اپنے عہد میں یہ رٹ سماعت کے لیے کیوں نہ لگائی ۔
تاریخ کا گہرامطالعہ کرنے والے کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ اگر کانگریس آزادی حاصل کرنے کے بعد جاگیروں کے مکمل خاتمے کا اعلان نہ کرتی تو شاید پاکستان کا قیام بھی ممکن نہ ہوتا۔ آزادی حاصل کرنے کے 75برس بعد بھی ہم ان لوگوں کے ملکی زمین میں حقوق کا تعین نہیں کر سکے جن کے نام ملک میں کہیں بھی کاغذات مال کے خانہ ملکیت میں درج نہیں ہوتے۔ پھر یہ طے کرنا بھی لازم ہے کہ ریاست ایک شہری کو کتنا رقبہ رہائشی مقاصد کے لیے استعمال میں لانے کی اجازت دے سکتی ہے۔ یاد رہے کہ کوئی ریاست اپنے شہریوں کو زمین کی ملکیت کے غیر محدود حقوق دینے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ آپ بلوچستان کے کھانسی کے شربت والے دردناک واقعہ پر غورکریں ۔ اس پورے واقعے میں آپ کو کہیں بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان دکھائی نہیں دے رہے۔ یہی ہمارا قومی المیہ ہے۔ یہاں ہماری حکومتیں ووٹ دینے والے نہیں، ووٹ گننے والے چنتے ہیں۔ حکومتیں بدلنے والے دور دیس بیٹھے اپنا کام کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعد جو پہلی چیز ہم نے کھوئی وہ یہی آزادی ہی تو تھی ۔ یہی دکھ بابر اعوان کی کتاب ’رجیم چینج اور توہینِ مملکت‘لکھنے کا موجب بنا ہے ۔
پیشہ وکالت سے وابستہ آصف محمود بہت پرمغز کالم لکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک کالم میں لکھا:’بابر اعوان کمرۂ عدالت میں اپنے کلائنٹ کا مقدمہ کسی سخت جان قبیلے کے ضدی جنگجو کی طرح لڑتے ہیں‘۔ وجاہت ، شجاعت اور خطابت ان کی شخصیت کے امتیازی نشانات ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونین ختم کرکے سیاسی کارکنوں کی نرسری ہی ختم کردی ۔ بابر اعوان صد اسٹوڈنٹس یونین فیڈرل کالج فار بوائز اسلام آباد، اس نرسری کی آخری پراڈکٹ ہی سمجھیے۔ ’نوائے وقت‘،’جنگ‘،’ایکسپریس‘میں لکھتے رہے ہیں۔ ان دنوں ’دنیا‘ میں باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔ تحریک انصا ف کے مرکزی رہنما ہیں۔ عمران خان کے باعتماد ساتھی ہیں۔ اس دور میں کتاب ’رجیم چینج اور توہینِ مملکت‘ کا مارکیٹ میں لانا ، انھی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ یہ کتاب لکھ کر سول سپرمیسی کی تحریک میں بابر اعوان نے اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ آپ اپنا حصہ یہ کتاب خرید اور پڑھ کر ڈال سکتے ہیں۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ ایک کتاب لکھنے سے کیا ہوجاتا ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ کتابوں میں بڑی تاثیر ہے ۔
٭…٭…٭