بلوچستان کے ضلع تربت میں خاتون خودکش حملہ آور کے حملے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا۔دھماکے میں پولیس کی ایک خاتون سپاہی سمیت دو افراد زخمی ہوئے۔ سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ کا محاصرہ کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور بہت جلد ملزمان کو تلاش کر لیں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے مقاصد کامیاب نہیں ہوں گے،دہشت گردی کا مقصد ترقیاتی عمل کو روکنا ہے۔ادھر، محکمہ انسدادِ دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران 9 دہشت گرد گرفتار کر لیے۔ ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق، دہشت گردوں کی گرفتاری فیصل آباد، گوجرنوالا، بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتان سے عمل میں لائی گئی۔دہشت گردوں کا تعلق ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے ہے جن سے بارودی مواد ، ڈیٹونیٹر ، فیوز اور نقدی برآمد ہوئی۔ دہشت گرد کارروائیوں میں خواتین کو ملوث کرنا سراسر بلوچ قوم کو بدنام کرنے کی سازش نظر آتی ہے۔ اس سازش میں بھارت کے ہاتھ کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کی باقاعدہ سرپرستی کرتا ہے جس کا اعتراف نریندر مودی ایک عوامی جلسے میں بھی کر چکے ہیں۔ بے شک سکیورٹی ادارے اور پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف پورے عزم کے ساتھ برسرپیکار ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں مگر دہشت گردوں کی باقیات اور سہولت کار اب بھی اپنے دہشت گردی کے اہداف پورے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جس کے لیے نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لے کر اس میں موجود سقم کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہماری سیاسی قیادت کو بھی بلوچستان کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جب تک بلوچ قوم کی محرومیوں کو دور نہیں کیا جاتا، بیرونی طاقتیں ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر معصوم بلوچ قوم کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی رہیں گی۔ اس سلسلے میں وفاق پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل کرے تاکہ بلوچ عوام کو قومی دھارے میں لایا جا سکے۔ پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں بلوچستان کے لیے پیکیج کا اعلان تو کیا گیا مگر کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے جس سے بلوچ قوم کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔ وفاق کی طرف سے ریاستی اکائیوں کو یکساں حقوق نہیں دیے جانے چاہئیں اور ان کی محرومیوں کو دور نہیں کیا جانا چاہیے ۔