215 ارب روپے کے مزید ٹیکس، منی بجٹ اور حکومتی ترجیحات

Jun 26, 2023

 پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مابین قرض کی نئی قسط کے اجراء کے حوالے سے معاملات کئی مہینے سے التوا کا شکار تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ قرض کی قسط جاری ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں اور اس کے لیے ایک بار پھر پاکستانی عوام کو بھاری قیمت چکانا ہوگی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے آئندہ مالی سال میں مزید 215 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، اس طرح آئندہ مالی سال میں مجموعی طور پر438 ارب روپے کی ٹیکس لگیں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت عوام سے مسلسل قربانیاں لے رہی ہے اور ان پر ہر طرح بوجھ بھی ڈال رہی ہے لیکن مراعات یافتہ طبقے کی مراعات و سہولیات میں کوئی کمی نہیں آرہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان پر خرچ ہونے والی رقم میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یہ صورتحال واضح طور پر بتاتی ہے کہ حکومت اشرافیہ کو نوازنا اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کو دبانا چاہ رہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک اس وقت سنگین مالی مشکلات کا شکار ہے اور حکومت کو کچھ تلخ فیصلے کرنا ہی پڑیں گے لیکن سارا بوجھ عوام پر ڈال دینا سراسر زیادتی ہے۔
 قرض کی نئی قسط ملنے کے جو امکان پیدا ہورہے ہیں اس سلسلے میں آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان قرض پروگرام کے نویں ریویو کو مکمل کرنے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جورجیوا کے درمیان پیرس میں تین ملاقاتوں کے بعد برف پگھلی ہے اور وزارات خزانہ اور آئی ایم ایف کی ٹیم کے درمیان گزشتہ تین روز کے دوران ورچوئل مذاکرات میں پیشرفت سامنے آئی ہے اور معاہدہ کے قریب پہنچ گئے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے گزشتہ چار روز سے بحث کو نہ سمیٹنے کی وجہ بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات کا جاری رہنا تھا، ان مذکرات کی روشنی ہی میں وزیر خزانہ نے فنانس بل میں اہم تبدیلیوں کا علان کیا۔ 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس بھی انھی تبدیلیوں کا حصہ ہیں۔ قبل ازیں، بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے 223 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے تھے اور منی بجٹ میں لگنے والے 170 ارب کے ٹیکسوں کوجاری رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ابھی تک آئی ایم ایف کی طرف سے اس پیشرفت کے بارے میںکچھ نہیں کہا گیا۔
شہباز شریف کی کرسٹلینا جورجیوا سے پیرس میں لندن روانگی سے پہلے ملاقات ہوئی۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے ساتھ وزیراعظم کی یہ تیسری ملاقات تھی۔ شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو مکمل کرنے کے پاکستان کے عزم کو دہرایا ، پاکستان کی معاشی حقیقتوں سے متعلق غور کرنے پر وزیراعظم نے ایم ڈی آئی ایم ایف کی سوچ کو سراہا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے کا جذبہ اور عزم رکھتا ہے۔ پاکستان کو شدید معاشی چیلنجز سے نکلنے میں دنیا کی معاونت کی قدر کرتے ہیں۔ سیلاب نے معاشی مشکلات کو مزید مشکل بنایا لیکن پاکستان نے اس کے باوجود اپنے عوام کو ریلیف دیا۔ پاکستانی عوام کو ریلیف ملنا ان کا حق ہے۔ معیشت کو واپس گروتھ کے راستے پر لانا آئی ایم ایف اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ گزشتہ چار سال کی معاشی بدحالی کی بحالی کے لیے ناگزیر اقدامات لینا ہوں گے۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح عالمی برداری کے ساتھ اپنے عزم اور وعدوں کی تکمیل پر پورا اترتا رہے گا۔
بتایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کی ٹیم نے نئے ڈرافٹ کو حتمی شکل دیدی ہے۔ ادھر، سٹیٹ بینک نے درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کردی ہیں اور کنٹینرز کی کلیئرنس کے لیے زرمبادلہ کی فراہمی کی بھی اجازت دیتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرط پوری کردی ہے۔ آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ کی سہولت کے جاری 6.7 ارب ڈالر کا پروگرام 30 جون 2023ء کو مکمل ہونا ہے۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پانچ بڑے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے نظرثانی شدہ تخمینہ جات کو حتمی شکل دیدی ہے اور ٹیکس ہدف 9 ہزار 200 ارب روپے سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔ ترمیمی فنانس بل کے ذریعے بجٹ میں مجموعی طور پر عوام سے 415 ارب روپے کے مزید ٹیکس وصول کرنے کے لیے ماہانہ دو لاکھ روپے سے زائد کی تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح میں ڈھائی فیصد، کھاد پر پانچ فیصد اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے سمیت دیگر اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جبکہ پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس ایک سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ علاوہ ازیں، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی 50 کے بجائے 60 روپے کی جائے گی۔
 ایک طرف حکومت آئی ایم ایف کا نام لے کر عوام پر بوجھ ڈالتی جارہی ہے اور دوسری جانب مراعات یافتہ طبقے کو سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی۔ اسی سلسلے میں ارکان پارلیمان کے لیے حکومت کی طرف سے ایک سہولت پیدا کی گئی ہے کہ انھیں حج کرانے کے لیے ایک خصوصی پرواز کا انتظام کیا گیا ہے جس کے بارے میں اسحاق ڈار نے ہفتے کے روز قومی اسمبلی کو آگاہ کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں عوام اور ان کے مسائل کہیں بھی شامل نہیں ہیں بلکہ ان کی ساری توجہ ایسے لوگوں کو مراعات و سہولیات دینے پر خرچ ہورہی ہے جو پہلے ہی ان مسائل اور پریشانیوں سے آزاد ہیں جن کا ایک عام آدمی کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سخت مالی مشکلات کے اس دور میں حکومت کی یہ ترجیحات بتاتی ہیں کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بلکہ شاید صرف اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ اشرافیہ کی مراعات و سہولیات میں کوئی کمی نہ آ جائے۔

مزیدخبریں