پارلیمنٹ لاجز میں منشیات کا استعمال ہو رہا ہے: مولانا عبدالاکبر چترالی
لگتا ہے ہماری پارلیمنٹ کے لاجز میں بھی وہی سب کچھ ہوتا ہے جو میٹرو بس یا اورنج ٹرین کے پلوں کے نیچے یا نالے پر بنے پلوں کے نیچے ہوتا ہے۔ فٹ پاتھوں پر بھی جہاں ذرا سی آڑ ہو ایسے درجنوں لوگ گرے پڑے ملتے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ نالوں، پلوں اور فٹ پاتھوں پر پڑے یہ لوگ چونکہ ذلتوں کے مارے ہوتے ہیں، غربت سے تنگ آ کر زندگی سے فرار کی راہ ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے برعکس بڑے بڑے ہوٹلوں، شیشہ کلبوں اور بارز میں جو لوگ یہی کام کرتے ہیں وہ زندگی کی عیاشیوں میں پرمسرت لمحات کو مزید بڑھانے کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ سستے گھٹیا نشے کو گندی سرنجوں کے ذریعے اپنی رگوں میں اتارنے والے یا ناک سے سونگھ کر زندگی برباد کرنے والے تو کچرے کے ڈھیر پرسسک سسک کر مر جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں منشیات کی جس میں چرس، شراب، اور آئس کی اعلیٰ کوالٹی استعمال کرنے والے پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ اب مولانا عبدالاکبر چترالی نے یقینا ثبوت کے ساتھ یہ بات کی ہو گی وہ بھی اسی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جہاں منشیات استعمال کرنیوالے بھی ممبر بنے بیٹھے ہیں بات صرف یہ نہیں کہ وہ منشیات استعمال کرتے ہیں بات یہ ہے کہ کئی ممبران اسمبلی کا کاروبار بھی یہی ہے یا وہ اس کی سرپرستی کر کے کروڑوں کماتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ سب کی بات نہیں مگر کالی بھیڑیں یہاں بھی ہیں۔ ایک وقت تھا جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز سے شراب کی خالی بوتلیں جمع کر کے نام کمایا بعدازاں شاید وہ انہی بوتلوں میں چوری شدہ پٹرول بھر کر بیچتے تھے۔ اب حکمران اور انتظامیہ مولانا کی بات کو ہلکا نہ لیں اور لاجز میں منشیات کے استعمال کی سختی سے بیخ کنی کی جائے عام طور پر ممبران کے ملازم اور ان کے ملنے والے یہ کام کرتے ہیں اور نام ممبران کا آتا ہے۔
٭٭٭٭٭
عید کے تین روز ریلوے کے کرایوں میں 33 فیصد کمی کا اعلان
اسے ہم اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی کہہ سکتے ہیں مگر چلیں کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہوتا ہے۔ اس وقت مہنگائی کے مارے عوام کی حالت یہ ہے کہ اگر کہیں سے بھی انہیں رعایت کی ایک رمق بھی نظر آئے تو وہ اسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس وقت حقیقت میں لوگ آہستہ آہستہ زندگی سے ہی بیزار ہونے لگیں ہیں اور
زندگی تجھ سے ہر ایک سانس پہ سمجھوتہ کروں
شوق جینے کا مجھے ہے مگر اتنا بھی نہیں
والی حالت سامنے آرہی ہے۔ اب ریلوے کی طرف سے عیدالاضحی کے تین ایام میں ٹرینوں کے کرائے میں 33 فیصد کمی کا اعلان ہوا ہے جس کا اطلاق تمام درجوں پر ہو گا ایک اچھی خبر ہے مگر عید پر چلنے والی سپیشل ٹرینوں کی ٹکٹوں پر یہ رعایت نہیں ملے گی۔ شاید انہیں سوتیلی ٹرینیں تصور کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عید کی تین چھٹیوں میں تو زیادہ تر لوگ گھر میں ہی رہتے ہیں بہت کم دور دراز علاقوں میں کسی سے ملنے جاتے ہیں۔ کیا بہتر نہ ہوتا کہ عید سے قبل تین دن اور بعد کے تین دن سفر کرنے والوں کو ایسی رعایت دی جاتی تاکہ وہ اطمینان سے گھر آ اور جا سکیں لیکن ریلوے والوں نے بھی ’’بنیئے کا بیٹا ہے کچھ دیکھ کر ہی گرا ہو گا‘‘ والی پالیسی اپنائی ہے۔ اس طرح واہ واہ کی داد بھی سمیٹیں گے اور نقصان بھی زیادہ نہ ہو گا۔ اگر ریلوے والے مین لائن ہی ڈبل کر دیں ریل کی کوچوں کی حالت بہتر بنا کر مسافروں کو سہولتیں دیں تو یقین کریں روزانہ دگنی ٹرینیں چلا کر بھی مسافروں کا رش کم نہ ہو گا اور ریلوے خوب منافع میں جائے گا۔ ورنہ ٹرانسپورٹ کی بڑی بڑی کمپنیاں سجی سجائی بسوں سے پہلے ہی مسافروں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف کھینچ چکی ہیں۔
٭٭٭٭
کراچی میئر کے الیکشن میں غیر حاضر پی ٹی آئی کے 11 ارکان پارٹی سے فارغ
یہ ایک اچھی بات ہے مگر صرف 11 کو ہی سزا کیوں۔مگر اب کم از کم پارٹی کے فیصلے کے خلاف جانے والوں کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔اب معلوم نہیں اگر ایک آدھ ممبر ایسا کرے تو کیا ہو گا اور اگر فارورڈ گروپ بنا کر کئی ممبران مل کر کوئی کام کرتے ہیں تو ان پر بھی یہی فیصلہ لاگو ہو گا یا نہیں۔ ہمارے ہاں فلور کراسنگ یا فارورڈ بلاک بنانے کی سیاسی روایات قدیم ہیں۔ جمہوری اقدار اور جمہوریت کے دعوے کرنے کے باوجود سیاسی پارٹیوں میں ازخود ممبران یا بصورت دیگر دوسروی قوتوں کے زیر اثر آ کر پارٹی ممبران اپنا فارورڈ گروپ بنا لیتے ہیں یا فلور کراسنگ کر کے من مرضی کرتے ہیں۔ اب تو کافی رد و کد کے بعد تھوڑی بہت پابندیاں آڑے آنے لگی ہیں۔ ویسے اعلان تو یہی ہوا تھا کہ تحریک انصاف کے کم و بیش 33 ارکان جماعت اسلامی کے میئر کو ووٹ دیں گے۔ وہ نکال کر بھی جماعت کو اپنے ووٹوں سے بھی کم ووٹ ملے اس کا بھی سراغ لگانا پڑے گا ایسا کیوں ہوا۔ پی ٹی آئی والے بھی 33 کی بجائے صرف 11 کو ہی کیوں نکال رہی ہے۔ کیا باقی گنگا نہائے ہوئے ہیں۔ فیصلے کا اطلاق سب پر یکساں ہونا چاہیے۔ ویسے بھی فی الحال یہ معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی والے سڑکوں پر عدالتوں میں میئر کے الیکشن کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ پی ٹی آئی والے بھی صبر و تحمل سے کام لیتے۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ پارٹی کے باغی ارکان فارورڈ یا حقیقی یا انقلابی گروپ بنا کر پارٹی میں مزید تقسیم کا باعث نہ بنیں۔ یہ ایک دو نہیں پورے 33 ارکا کا معاملہ ہے۔
٭٭٭٭
مفتاح اسماعیل نے مسلم لیگ (ن) کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دیدیا
صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے الیکشن لڑنے کی سیاست سے بھی انکار کر دیا ہے۔ اب وہ معلوم نہیں وہ مسلم لیگ (نون) کی رکنیت برقرار رکھتے ہیں یا اس سے بھی دستبردار ہو رہے ہیں۔
مفتاح کو پارٹی کے اندر رہتے ہوئے پارٹی کے اہم عہدیدار اور سابق وزیر خزانہ ہونے کے باوجود پارٹی کی حکومت پر، معیشت کی صورتحال پر، اقتصادی بدحالی پر جارحانہ تبصرے کرنا، معاشی صورتحال کی خوفناک منظر کشی کرنا مہنگا پڑا ہے۔ ویسے جب وہ خود وزیر خزانہ تھے تو اس وقت وہ خود بھی ایسا کچھ نہ کر سکے کہ لوگ انہیں اچھے لفظوں سے یاد کرتے۔ پی ٹی آئی کے سابق 3 عدد وزرائے خزانہ بھی ان کی کارکردگی پر خوب شور مچاتے رہے تھے۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ مسلم لیگ (نون) والوں نے اختلاف پر استعفے کی بات کی مگر نکالا نہیں جبکہ پیپلز پارٹی کو دیکھ لیں اس نے حد سے گزر جانے پر اپنے قدیم دو بڑے رہنمائوں کو یک بینی و دو گوش بالآخر تنگ آ کر پارٹی سے ہی نکال دیا جو پارٹی کے خلاف بولتے بھی تھے اور مستعفی بھی نہیں ہو رہے تھے۔ ایک اعتزاز احسن جو پارٹی کی قدیم باقیات میں سے ایک ہیں دوسرے لطیف کھوسہ جو درمیانی دور کے آثار میں شامل ہوتے ہیں۔ تنقید برائے اصلاح اچھی لگتی ہے۔ مگر جب تنقید برائے تنقید ہو جائے تو پھر اصلاح نہ اپنی ہو سکتی ہے نہ پارٹی کی۔ اس پر پارٹی کو ازخود فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ مفتاح اسماعیل کو یہ مثبت نمبر مل سکتا ہے کہ انہوں نے ازخود مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ پارٹی کو انہیں ہٹانے یا نکالنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی اور گھر کی بات گھر میں ہی رہی گئی۔ مگر اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو تو حد سے گزر جانے کے بعد ہی دیس نکالے کا سندیسہ دیا گیا۔