آئی ایم ایف اور حکومت کی کنفیوڑن 

Jun 26, 2023

محمد حمزہ عزیز 

تحریر : محمد حمزہ عزیز 

آئی ایم ایف کے ساتھ نواں ریوو ہونے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے - 29 
جون تک ہونے والی آئی ایم ایف کی تمام میٹنگوں  کی لسٹ میں بھی پاکستان کا نام موجود نہیں لیکن فرانس میں ہونے والی مالیاتی کانفرنس کے دوران وزیراعظم شہبازشریف اور ا?ئی ایم ایف کی ایم ڈی کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں پاکستان اور ا?ئی ایم ایف کے درمیان تعاون پر بات چیت کی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ا?ئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے،  امید ہے پاکستان  کیلیے مختلف فنڈزجلد جاری کردیے جائیں گے۔ دوسری طرف وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں امریکی سفیرڈونلڈ بلوم سے ملاقات کے دوران پاکستان اور ا?ئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ انہی حالات کو دیکھتے ہوئے اب ‘‘پلان بی’’ پر غور کیا جا رہا ہے جو کہ یہ ہے کہ دوست ممالک یعنی چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تین سے چار ارب  ڈالر کا انتظام کروا لیا جائے لیکن ابھی یہ سب صرف خیالی باتیں ہی لگ رہیں ہیں۔ - دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی اس حوالے سے حکومت کے دعوے درست ہیں - 
امریکی جریدے بلوم برگ نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ا?ئی ایم ایف کا پروگرام رول اوور نہ ہوا تو پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ہے۔ پاکستانی بجٹ پر ا?ئی ایم ایف کے اعتراض نے قسط نہ ملنے کے خدشات بڑھائے ہیں، اگر فنڈ نہ ملا تو مہنگائی اور شرح سود توقعات سے زیادہ بڑھے گی۔ 1998 میں بھی پاکستان کو کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا تھا۔ پاکستان جب ایٹمی دھماکوں کے بعد آئی ایم ایف سے قرض لینے گیا تو امریکہ کی ناراضگی کے باعث ہمیں تب بھی بہت سخت شرائط پر قرض دیا گیا تھا اور وہ مجبوراً پوری بھی کرنا پڑی تھیں۔ ا?ج بھی پاکستان کو ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ جب 2019 میں پاکستان آئی  ایم ایف کے پاس گیا اور وہاں ان کی شرائط دیکھیں جو بہت سخت تھیں  تو اس وقت کے وفاقی سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگہ نے تب کہا تھا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے تباہی ہے مگر حکومت نے اس  بات پر ناراض ہوکر انہیں ہٹا دیا -  اس دوران  اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ وزیر خزانہ بن چکے تھے۔ اب حالات سب کے سامنے ہیں۔  آپ دیکھیں کہ آئی  ایم ایف بار بار اضافی شرائط پیش کررہا ہے جن کو حکومت کی طرف سے پورا بھی کیا جا رہا ہے۔ جس میں اسٹیٹ بینک شرح سود 21فیصد کی بلند ترین  پر لانے، پیٹرول اور ڈیزل پر 50روپے فی لیٹر ریٹ بڑھانے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے، سیلز ٹیکس شرح 17سے 18فیصد کروانے، امپورٹ پر پابندیاں ، ڈالر کے مقابلے میں روپے کو ایک سال میں 100روپے سے زیادہ کی  قدر کی کمی کرنے جیسے بڑے فیصلے شامل تھے جس نے ملک میں مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ حقیقت کو دیکھا جائے تو عوام کو اس بجٹ سے کچھ نہ کچھ  ریلیف ہی ملا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے  بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30سے 35فیصد اور پنشن میں 17.5فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر پنجاب کے ملازمین کی پنشن میں صرف پانچ فیصد اضافہ کیا گیا ہے جو انتہائی نامناسب ہے - اس پر فوری نظر ثانی کرکے وفاق کے برابر لانا چاہیے- نجی شعبے میں کم از کم اجرتیں 32000سے 33000روپے ماہانہ ہوئی ہیں، مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس پر عمل درآمد کرانے کا میکانزم کیا ہوگا ؟ وسائل نہ ہونے کے باوجود حکومتی ترقیاتی منصوبوں میں 950ارب روپے مختص کیے گئے۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے پاس کوئی  بھی پلاننگ نہیں تھی۔ آئی ایم ایف نے بجٹ پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے بغیر پوچھ گچھ ایک لاکھ ڈالر کی ترسیل کواپنی  شرائط کے خلاف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے ٹیکس بنیاد وسیع کرنے اور اخراجات میں کمی کا موقع گنوادیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کیمطالبے پر سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر اور یو اے ای سے ایک ارب ڈالر کے  سیف ڈپازٹس 30جون تک متوقع ہیں جبکہ چین نے ایک ارب ڈالر کے کمرشل قرضے کو گزشتہ روز واپس کیا ہے۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوتا تو وہ 30 جون 2023کو ختم ہوجائے گا۔ جون 2023کے ا?خر میں پاکستان نے 900ملین ڈالر کے ایک ملٹی لیٹرل قرضے کی ادائیگی بھی کرنی ہے جس کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 3ارب ڈالر سے بھی نیچے چلے جائیں گے۔ ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ اگر دوست ممالک نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے اضافی دو ارب  ڈالر  نہیں دیے تو آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ہونے کی صورت میں تین ارب  ڈالر کیسے دیں گے ؟۔ ابھی سعودی عرب نے بھی کچھ دنوں پہلے اپنے دو ارب  ڈالر آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کی شرط پر پاکستان کو دینے کا اعلان کیا تھا جب کہ متحدہ عرب امارات نے بھی ایک ارب  ڈالر دینے کا وعدہ اسی بنیاد  پر کیا تھا۔ اب اگر یہ ریویو نہیں ہوا اور آئی  ایم ایف پروگرام ختم ہوگیا تو یہ تین ارب  ڈالر بھی پتا نہیں ملیں گے  یا نہیں۔ اتنے کم وقت میں دوست ممالک سے اتنی بڑی رقم کا مطالبہ کرنا صرف ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کسی قسم کی کوء منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ پہلی ترجیح آئی  ایم ایف کو دینی چاہیے۔ یہ جو غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں دور کرنے کیلئے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل قائم کی گء ہے اگر یہ ہی اپنا کام ایمانداری سے کر لے تو حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔ ا?رمی چیف نے بھی اس پلان پر بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت کونسل کا پہلا اجلاس بھی ہوا  جس کے مطابق قومی حکمت عملی سے ملک کو درپیش موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔ یہ جن ملکوں سے ہم قرضے مانگ رہے ہیں انہوں نے اسی طرح اپنے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کروا کر اپنی معیشت کو سنوارا ہے۔
پاکستان کی موجودہ تباہ شدہ معیشت کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ایک حقیقت ہے کہ  بیرونی قرضوں کی بدولت ہمارا حکومتی ڈھانچہ کھڑا ہے اور سرکار چاہے وفاقی ہو یا صوبائی اپنے خرچے کم کرنے پر تیار نہیں۔ پاکستان اس وقت ہر طرف سے بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط دن بہ دن مشکل ہوتی جا رہیں ہیں۔اگر کہا جائے کہ پاکستان اب  تقریباً ہائپر انفلیشن کا شکار ہو چکا ہے تو یہ سچ ہے کیونکہ نہ اب کسی چیز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کل اس کی قیمت کیا ہوگی۔  حکومت کو چاہئیے کہ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں۔  آٹھ سے نو مہینے سخت فیصلے کرنے کے بعد بھی اگر آئی  ایم ایف پروگرام آگے نہیں بڑھتا تو یہ ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ حکومت کو بجٹ بناتے وقت آئی ایم ایف کو ساتھ رکھنا چاہئے تھا کیونکہ بجٹ کے بعد ا?ئی ایم ایف کا ردعمل اپنے حوالے سے بالکل درست ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ا?ئی ایم ایف کے تحفظات کو جلد از جلد مذاکرات کے ذریعے دور کریں تاکہ موجودہ غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔اس کے ساتھ اتنا ہی ضروری ہے کہ گورننس کو بہتر بنا کر لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جائیں -ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر آئی ایم ایف ہمارے ساتھ کوئی گیم کررہا ہے تو ہماری حکومت اسے سمجھنے سے قاصر ہے اور کنفیوڑن کا شکار ہے - - جو  زیادہ خطرناک بات ہے -

مزیدخبریں