کاشف مرزا
صدر بائیڈن نے ایک شاہانہ سرکاری دورے کے دوران ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ بنیاد پر زور دیا، عوامی طور پر ہندوستان میں انسانی حقوق کے خلاف حکومت کے کریک ڈاؤن اور یوکرین میں روس کی جنگ پر دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے معاشی اور جغرافیائی سیاسی تعلقات کو تقویت دینے کی امید میں عوامی سطح پر تنازعات کو ختم کیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکا کے موقع پر58طویل پیرا گرافوں پر مشتمل امریکا ، بھارت مشترکہ اعلامیہ دونوں ممالک کے مابین خیر سگالی ، باہمی مفادات اور معاشی تعاون کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ امریکی سر پرستی میں بھارت کو ایشیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت معیشت اور جغرافیہ تبدیل کرنے کی صلاحیت والی طاقت بنانے کے عزائم کی نشاندھی کرتا ہے.جبکہ، پاکستان کیلئے نئی مشکلات اور چیلنجز ، یہ ایشیاء میں نئی سرد جنگ کا پیش خیمہ ہے جبکہ انڈیا کو ایشیائ کی سب سے بڑی طاقت بنانے کا عزم، اسکا واحد امریکی مقصد ایشیاء میں اب تمام مراعات وفیصلے کرنے میں بھارت کو برتری دینا ہے جبکہ عملی طور پر یہ مشترکہ اعلامیہ چین اورپاکستان کیلئے خطرے کا ایک بڑا آلارم بجار ہا ہے۔ اعلامیہ کے پیرا گراف 32کے تحت دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان پر ایک بار پھر وہ ذمہ داریاں اورالزامات کا جواز فراہم کردیا گیا ہے جوبھارت عرصہ سے پاکستان پرعائدکرتا چلا آرہا ہے پیراگراف 29میں جغرافیائی سلامتی اوردیگرعنوانوں کے غلاف میں چھپی ہوئی دھمکیاں اوردباؤ بھارت کو ناپسند ممالک کیلئیموجود ہیں۔بائیڈن اورمودی نے سرحد پار دہشتگردی اوردہشتگرد پراکسیوں کے استعمال کی شدید مذمت کی اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کیلیے فوری کارروائی کرے کہ اسکے زیر کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشتگردانہ حملوں کیلیے استعمال نہ ہو۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ بھارت اسلام آباد کے خلاف انتہا پسندی کے الزامات کو کشمیر کی صورتحال اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے منہ موڑنے کیلیے استعمال کررہا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کی منصوبہ بندی کی منتقلی پرگہری تشویش ہے، اوراسطرح کے اقدامات جنوبی ایشیا میں امن کے حصول میں مددگار ثابت نہیں ہوں گے۔ امریکی صدر نے مودی کے ساتھ سرخ قالین کی محفل کے ایک دن کا سلوک کیا اور ان پر وسیع چاپلوسی کی کیونکہ وہ ایسے وقت میں ہندوستان کو قریب لانے کی کوشش کر رہے تھے جب امریکہ خود کو ماسکو کے ساتھ کھلے تنازعہ اورچین کیساتھ ایک بے چین تعطل میں بند پاتا ہے۔ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی پر اپنے ریکارڈ کو چیلنج کرتے ہوئے، مودی نے اصرار کیا کہ جمہوریت ہندوستان کے ڈی این اے میں ہے اور اس سے انکار کیا کہ انکی حکومت نے اپنے لوگوں کی خدمت میں تعصب کو فروغ دیا ہے۔ یہاں تک کہ جب وائٹ ہاؤس کے دروازے کے باہر مظاہرین نے بھارت میں اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کیا، اس دوران بائیڈن ہندوستان کی جمہوری پسپائی پر تنقید سے کنارہ کش رہے، وہ اس سے قبل ایک مہم کے فنڈ اکٹھا کرنے کے دوران چین کے صدر شی جن پنگ کو ایک آمر کے طور پر بیان کرنے کے ساتھ کھڑے رہے۔ مودی کا ریاستی دورہ جیو پولیٹیکل شطرنج کی بورڈ کا تازہ ترین اقدام تھا کیونکہ بائیڈن ماسکو اور بیجنگ میں بڑھتی جارحانہ حکومتوں کے خلاف مزید اتحادیوں کی تلاش میں ہیں۔ سرد جنگ کے دوران سختی سے غیر منسلک رہنے والیہندوستان نے روسی افواج کے خلاف جنگ میں یوکرین کی مدد کرنے والے امریکی قیادت والے اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ بھارت چین کیلیے ایک خاص دشمنی رکھتا ہے، لیکن پھربھی اس نے انڈو پیسیفک خطے میں ایشیائی دیو کو روکنے یا جارحیت کے خلاف تائیوان کا دفاع کرنے کیلیے واشنگٹن کی حکمت عملی کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا ہے۔ مودی کی آبیاری کرتے ہوئے، جسے وزیر اعظم بننے سے پہلے انکی آبائی ریاست میں ایک مہلک مذہبی فسادات میں انکے کردار کی وجہ سے امریکی ویزا سے انکار کر دیا گیا تھا، بائیڈن نے جمہوریت بمقابلہ خود مختاری کے بارے میں اپنی زبان کو ایک طرف رکھ دیا جو اپنے وقت کی واضح جدوجہد تھی۔ بائیڈن نے ہندوستان میں اقلیتی گروپوں اور حزب اختلاف کی آوازوں کے بڑھتے ہوئے دبائو کا براہ راست ذکر کیے بغیر دونوں ممالک کو عالمی اقدار کیلیے پرعزم ساتھی جمہوریت قرار دیا۔ بائیڈن نے بھارت کے ساتھ امریکہ کی شراکت داری کو دنیا میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز قرار دیا۔ مودی نیمسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پرجبر کی پرواہ کیے بغیر، ایک گھنٹہ طویل تقریر میں 17 بار جمہوریت کا لفظ استعمال کرتے ہوئے، بھارت کو جمہوریت کی ماں کے طور پر پیش کیا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، ہندوستانی وزیر اعظم نے کہا کہ انکا ملک دنیا کی5ویں بڑی معیشت سے ترقی کر چکا ہے جب اس نے آخری بار 2016 میں کانگریس سے خطاب کیا تھا اور آج پانچویں بڑی معیشت ہو گئی ہے۔ مودی کے پرتپاک استقبال کیباوجود، کئی کانگریس لبرل ڈیموکریٹس نے مودی کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔ بائیڈن کی منافقانہ حکمت عملی اور شکوک و شبہات کی پالیسی کی وجہ سے، بائیڈن انتظامیہ نے خود مختاری اور جمہوریت کی حمایت کرنے کے اپنے عزم کے دعویکو پس پشت ڈال دیا، جووہ ہندوستانی وزیر اعظم کو خوش کرنیکے شوق میں دم توڑ گئی۔ اگر امریکہ یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ ہند بحرالکاہل میں سلامتی کے وعدوں میں مودی کی چاپلوسی کر سکتا ہے جو تائیوان کے تنازعہ کا علاقہ بن جانے کی صورت میں چین کے خلاف فوجی حمایت میں سمجھاجائیگا، تو امریکہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے اور یہ سمجھنے میں ناکام رہا ہے کہ ہندامریکہ کے درمیان کیا مشترکہ قدریں ہیں۔ بائیڈن نے اپنے ایک ٹویٹ میں امریکہ بھارت بارے لکھا ہے کہ یہ دو عظیم قومیں، دو عظیم دوست اور دو عظیم طاقتیں ہیں۔امریکابھارت کیلئے سلامتی کونسل میں مستقل نشست کیلئے کام کریگا،بھارت اور امریکا نے ایک دوسرے کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں 6 تنازعات ختم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جبکہ بھارت نے 28 امریکی مصنوعات پر بدلے میں لگائی گئی ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکا جو ٹیکنالوجی کسی کو نہیں دیتا وہ بھارت کو فراہم کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے ،تعاون کیلیے دونوں ممالک میں 33 شعبوں کی نشاندہی ہوئی ہے، بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنانے کیلیے امریکا زیادہ سرگرم کردار ادا کریگا، سرمایہ کاری کیلیے بھی امریکیوں نے بھرپورسرمایہ کاری کاپروگرام دیا ہے، کیونکہ انہیں مغرب کی سرکردگی میں اپنے نظام اورچین کے خطرے سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ایک ایسا ساتھی مل گیاجو آبادی کیاعتبار سیدنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جبکہ بھارتیوں کااطمینان یوں قابل دید تھا کہ امریکا نے انکے ہاں بھرپور سرمایہ کاری کاپروگرام دیا ہے بلکہ امریکا کی وہ خاص ٹیکنالوجی جسے وہ کسی دوسرے ملک کو دینے کیلئے آمادہ نہیں ہوا اب بھارت کو فراہم کررہاہے۔
بھارتی وزیراعظم نیامریکی صدر کی خواہش کیباوجود یوکرائن پر روس کے حملے کی مذمت سے اجتناب کیا ہے نریندا مودی نے امریکی قیادت کو قائل کرلیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کے نصب العین کو حاصل کرنے کی غرض سے اسکی کوششوں میں پہلے سے زیادہ سرگرم کرداراداکرے گا تاکہ بھارت عالمی ادارے کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن کرچین کے ہم پلہ ہوسکے۔ (جاری)