25 وائس چانسلرز کا سوال ہے بابا

تحریر: انور خان لودھی 

پنجاب میں 25 سرکاری یونیورسٹیوں کیلئے چھ سو سے زائد درخواستیں ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ یعنی ایچ ای ڈی پنجاب کو موصول ہوگئیں جن کی شارٹ لسٹنگ اور سکروٹنی کا عمل جاری ہے۔ مشتہر کردہ طریق کے تحت 79 فیصد سے زیادہ مارکس حاصل کرنے والے امیدواروں کو سرچ کمیٹی انٹرویو کیلئے بلائے گی۔ انٹرویو کے سو مارکس رکھے گئے ہیں۔ ہر امیدوار کی تعلیمی و انتظامی صلاحیت اور تجربے کے حاصل کردہ مارکس کا پچاس فیصد اور انٹرویو میں حاصل کردہ مارکس کا بھی پچاس فیصد تاثر یعنی weightage حتمی میرٹ سازی کیلئے استعمال ہوگا۔
ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو جزوی طور پر منسٹر سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ رانا سکندر کی عندیت میں دیا گیا ہے۔ جاری نوٹیفکیشن کے مطابق رانا سکندر اسمبلی افئیرز کی حد تک ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے انچارج ہوں گے تاہم ان کو signatory پاورز حاصل نہیں ہیں۔ رانا سکندر متحرک وزیر ہیں۔ ان کے محکمے کی کارکردگی پر تنقید ممکن ہے مگر رانا سکندر کی دوڑ دھوپ اور میڈیا سے ان کا " حبیبی ہیا ہیا" والا تعلق ان کو دیگر وزرا سے ممتاز رکھتا ہے۔ وہ متعدد بار ایسے اجلاسوں کی صدارت کر چکے ہیں جن میں ان کا اپنا سیکرٹری تو ہوتا ہی ہے ہائر ایجوکیشن، سپیشل ایجوکیشن کے سیکریٹریز بھی موجود تھے اور اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی سے متعلق بریفنگ دے رہے تھے۔ اندریں حالات امید کی جارہی تھی کہ شاید ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا چارج بھی رانا سکندر کو مل جائے۔ ادھورے نوٹیفکیشن کے باوجود ایچ ای ڈی پر رانا سکندر کی سکندری چلنے کا امکان غالب رہے گا۔ ادھورے نوٹیفکیشن کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ پنجاب میں محکموں اور اداروں کی ری ویمپنگ پر کام ہو رہا ہے۔ جس کے تحت ملتے جلتے محکمے ایک دوسرے میں ضم کر دیے جائیں گے۔ اس کا مقصد انتظامی اخراجات میں کمی لانا ہے اور عین ممکن ہے کہ تعلی سے متعلق دو یا دو سے زائد محکموں کو ایک ہی محکمہ بنا دیا جائے۔ اس صورت میں رانا سکندر گریٹر محکمہ تعلیم کے سرخیل ہو سکتے ہیں۔ جس محکمے کا منسٹر نہ ہو اس کا والی وارث وزیر اعلیٰ ہوتا ہے یا ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اعلیٰ تعلیم وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف اور پھر ان کے بعد کافی حد تک رانا سکندر کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ بہر حال سرچ کمیٹی کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ کام کو امتحان اس لئے قرار دیا ہے کہ سرچ کمیٹی کو اپنا فرض نبھانے میں گونا گوں چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ وائس چانسلر کا عہدہ جس قدر پر کشش اور کرشماتی بنا دیا گیا ہے اس کا اندازہ جامعات سے وابستہ افراد بخوبی لگا سکتے ہیں۔ کسی وائس چانسلر کا دفتر صوبائی سیکریٹریوں کے دفاتر سے "ماڑا" نہیں ملے گا۔ اس کشش کے باعث اس عہدے پر سفارشیں بھی ہمالیہ ایسی آئیں گی۔ مختصر وقت میں سیکڑوں امیدواروں کے انٹرویو کرنا بھی بازیچہ اطفال نہیں۔ پانچ سال قبل ایک درجن کے قریب یونیورسٹیز کے وائس چانسلر تعینات کرنے کیلئے انٹرویو ہوئے تو کئی امیدوار انٹرویو کے بعد یہ کہتے پائے گئے کہ سو سیکنڈ کا انٹرویو کو انٹرویو کے بجائے تقریب رونمائی کہنا زیادہ مناسب ہے۔ جس امیدوار کا دس پندہ منٹ کا انٹرویو لیا جاتا وہ خود اور دیگر امیدوار مضبوط امیدوار تصور کرتے۔ سرچ کمیٹیوں کے ارکان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان کیلئے نیک تمنائیں۔ انٹرویو کے بعد کوالی فکیشن کو ملا کر
سرچ کمیٹیاں ہر یونیورسٹی کیلئے میرٹ وائز تین تین نام ایچ ای ڈی کے سپرد کریں گی۔ ایچ ای ڈی ان تین تین ناموں پر مشتمل سمریاں بنائے گا۔ ایچ ای ڈی سے سمری منسٹر ہائر ایجوکیشن، وہاں سے وزارت قانون، چیف سیکرٹری آفس اور پھر وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ پہنچتی ہے۔ چیف منسٹر کو اسی دباو¿ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو سرچ کمیٹیاں برداشت کر چکی تھیں۔ تازہ ترین سیاسی ڈویلپمنٹ یہ ہے کہ بجٹ منظور کرنے میں تعاون فراہم کرنے کے عوض پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان مسلم لیگ ن سے وفاق اور پنجاب میں ہر سطح پر پاور شئیرنگ کی خاموش معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وائس چانسلر جیسی " طراوت" سے بھرپور آسامی پر پیلپلز پارٹی بھی کچھ اپنے حامیوں کا لانا پسند کرے گی۔ بات مانی گئی تو ٹھیک ورنہ گورنر ہاو¿س میں جیالا بٹھایا گیا ہے۔ ہر سمری لاٹ صاحب یعنی گورنر پنجاب کو رسمی منظوری کیلئے بھیجی جاتی ہے۔ جسی نے ہوچھا حافظ جی حلوہ کھاو¿ گے تو جواب ملا " ہم حافظ اور کس لئے بنے ہیں؟" گورنر ہاو¿س میں پیپلز پارٹی کے سردار سلیم حیدر بہت سے معاملات میں پیلپز پارٹی کے مفادات کا تحفظ نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ جہاں تک وائس چانسلر شپ کے امیدواروں کا تعلق ہے کثیر تعداد اہلیت کیلئے مطلوب 80 فیصد مارکس حاصل نہیں کر پائے گی۔ اس سے پہلے پاسنگ مارکس 75 تھے جس میں اس بار ہانچ مارکس کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تگڑے امیدواروں کا کھوج لگائیں تو اس وقت قائم مقام وائس چانسلرز بھی مضبوط پوزیشن میں ہیں کیونکہ اس عہدے ہر ان کو کچھ ایڈوانٹیج ہوتا ہے۔ کام میں ردھم ہوتا ہے، بہت سے انتظامی امور میں اپ ڈیٹ ہوتے ہیں، طاقتور حکقوں سے فطری طور پر رابطے میں ہوتے ہیں۔ دوسری جانب نوعمر سابق وائس چانسلرز بھی اس نشست پر پہنچنے کیلئے پر عزم اور پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں، تیسری کیٹگری ان امیدواروں کی ہے جن کا سول اور ملٹری بیوروکریسی میں اثر ورسوخ یا تعلق داری اور عزیز داری ہے۔ اس نکتے پر بہت سی معلومات دستیاب ہیں لیکن چپ ہی بھلی۔ چوتھے نمبر پر طاقتور سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی سرپرست کے حامل امیدواروں کا بھی کلہ مضبوط نظر آتا ہے۔ ایک مذہبی سی سیاسی جماعت کے سربراہ ماضی میں کچھ وی سیز لگوا چکے ہیں۔ ایک کالعدم تنظیم نے بھی وسطیٰ پنجاب میں ایک وائس چانسلر چار سال پہلے تعینات کرایا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کی وی سی شپ سب سے فیورٹ ہے اور امیدواروں کیلئے ہاٹ کیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اسلام آباد کی ایک بڑی یونیورسٹی کے وی سی نے پنجاب یونیورسٹی کیلئے درخواست دی ہے۔ موجودہ تقریبآ سبھی ہرو وائس چانسلرز مستقل وائس چانسلرز کیلئے امیدوار ہیں۔ چئیرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن ڈاکٹر شاہد منیر نے بھی وی سی شپ کیلئے خود کو آزمانا پسند کیا ہے۔ ایچ ای سی پاکستان سے کچھ بڑے عہدے دار بھی پنجاب میں وہ سی کے امیدوار ہیں۔ گذشتہ سال سوا سال میں مستقل وی سی رہنے والے بھی نئی وی سی شپ کے امیدوار ہیں۔ درخواستیں نئی طلب کرنے سے کچھ سابق وی سیز اوور ایج ہو کر دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ منسٹر ہائر ایجوکیشن یعنی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اگر ردھم برقرار رکھا، دباو¿ کا دانش مندی سے مقابلہ کیا تو امید ہے کہ جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں صوبے کی دو درجن سے زائد یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز تعینات ہو جائیں گے۔ مستقل وائس چانسلرز سے یونیورسٹیاں سکھ کا سانس لیتی ہیں، سکھ کا سانس ارتکاز دیتا ہے اور ارتکاز پائیدار ترقی کی اساس ہوتا ہے۔ پائیدار ترقی کس وزیر اعلیٰ کو پسند نہیں ہوتی بس 25 مستقل مگر سچے اور کھرے وائس چانسلرز کا سوال ہے بابا۔

ای پیپر دی نیشن