حکمرانو پنشن کو بوجھ کیوں سمجھتے ہو؟   بزرگ شہریوں کا خیال رکھنا کس کی ذمہ داری ہے ؟  

نقطہ نظر   

 چوہدری ریاض مسعود

ch.riazmasood@gmail.com

ہمارا دین ہمیں بزرگوں کی خدمت کرنے ، عزت کرنے اور ان کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کرنے اور نرمی سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ اسلام کے نام پرقائم ہونے والے اس ملک میں بزرگ رُل گئے ہیں "کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے ہماری حکومت نے بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبوداور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے "سیاسی پوائینٹ سکورنگ"سے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ بزرگ شہریوں کو انتخابات سے پہلے سبز باغ کیوں دکھائے گئے تھے لیکن عملاً کاغذی ہی نکلا۔ بزرگوں کو تو پبلک ٹرانسپورٹ اور ریلوے میں سفر کے لیے مفت اضافی سہولتیں تک حاصل نہیں ۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری ، نیم سرکاری اداروں اور بنکوں میں بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی کاونٹرصرف کا غذوں کی حد تک ہی ہیں صرف بنکوں نے "دکھاوے"کے لیے 2"x4"کی ایک پرچی کا ونٹرپر ضرور لگائی ہوتی ہے لیکن آپ کو بزرگ شہری لمبی لمبی قطاروں میں لگے ہوئے نظر آئیں گے۔ بزرگ شہریوں کے لیے ٹیکسوں میں کوئی رعائیت تک نہیں ہے بلکہ یہ تو نہ بیمہ کرواسکتے نہ ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتے ہیں اور نہ ہی بنکوں سے کوئی قرضہ لے سکتے ہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اور حکومت انہیں 'چلے ہوئے کارتوس ©"ہی سمجھتے ہیں جبکہ یور پی ممالک اپنے تمام بزرگ شہریوں کو تاحیات اعلی درجے کی مراعات ، ہر طرح کی سہولتیں اور ماہانہ وظائف بھی دیتے ہیں ۔ دکھ بھری حقیقت ہے کہ پاکستان میں بزرگ شہری اپنی زندگی کے آخری ایام مشکل ترین حالات اور تنگ دستی میں گزارتے ہیں۔ آپ سرکاری محکموں اداروں، بنکوں اور صنعتی اداروں سے ریٹائر ہونے والے بزرگ پنشنرز کو لے لیں کہ جنہیں مالیاتی اقتصادی امور کے ماہرین، سیاست دان، میڈیا اور حکومت ملکی معیشت پر بوجھ قرار دیتے ہیں اور آئی ایم ایف سے محض چند ارب ڈالر قرضہ لینے کے لیے اِن کے ایجنڈے پر "من و عن"عملدر آمد کر رہے ہیں اور دکھ بھری حقیقت یہ ہے سب اسی "عالمی مہاجن"کی ہی "بولیاں بول رہے ہیں کہ "پنشن ملکی معیشت پر بوجھ ہے"کوئی اِن سے پوچھے کیا ملک کی معیشت ان بزرگ پنشنروں نے تباہ کی ہے؟ کیا ان بزرگ پنشنروں نے 60سال پہلے ان عالیٰ دماغوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ کشکول لے کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیں؟ کیا ہمارے یہ بزرگ پنشنرز ملک کی مالیاتی انتظامی اور اقتصادی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں کہ جس سے معیشت کا یہ"دھڑن تختہ"ہو ا؟ کیا ملک کے بڑے بڑے شعبے زراعت، صنعت، تجارت، سرمایہ کاری بینکنگ، اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر ادارے بزرگ پنشنرز نے تبا ہ کیے ہیں۔؟ کیا بھاری بھر کا بینہ ، وزراءمشیرانِ کرام ، اراکین پارلیمنٹ کی پُر کشش تنخواہیں مالی مراعات ٹرانسپورٹ ، شاہانہ پروٹوکول کے خطیر اور کثیر اخراجات قومی معیشت پر بوجھ نہیں ؟ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں ، حکومتی محکمے ہوں یا خود 

-2-
مختار ادارے کیا کسی نے بھی کبھی اپنے اخراجات میں "ایک دھیلے"کی بھی کمی کی؟ ہر حکومت اور اس کے اقتصادی ماہرین جو بھاری 
معاوضے لے کر بھی ملکی معیشت کو استحکام نہ دے، سب کو بوڑھے بزرگ پنشنروں کی قلیل پنشن کیوں"چھبتی"ہے ؟ یاد رہے کہ اس وقت میں پنشنروں کی کل تعداد کے65فیصد سے زائد کی ماہانہ پنشن تقریباً 40ہزار روپے سے بھی کم ہے کوئی "عالی دماغ"اس قلیل پنشن میں سے ایک گھر کا بجٹ بنا کر تو دکھائے ۔ یہ بات حیران کن ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو سالانہ اضافہ کرتی ہے اس سے تقریباً 50فیصدسے بھی کم اضافہ بوڑھے بزرگ پنشنروں کی پنشن میں کرتی ہے حالانکہ گزشتہ 50سالوں سے تنخواہوں اور پنشن میں یکساں اضافہ ہوتاتھا۔ اس ریکارڈ مہنگائی کے دور میں بوڑھے بزرگ پنشنروں کی "پنشن پر چھری"کون چلا رہا ہے اور کیوں ؟ یاد رہے کہ 2023-24 سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35فیصد اضافہ کیا گیا تھا جبکہ بوڑھے بزرگوں کی پنشن میں صرف 17.50فیصد اضافہ کیا گیا تھا موجودہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد جبکہ پنشن میں محض15فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے یہ ایک دلچسپ مگر افسوس ناک حقیقت ہے کہ وزارتِ خزانہ نے اپنے وزیرِ خزانہ کی جو تقریر پرنٹ کی تھی اس میں پنشن میں 22فیصد اضافہ لکھا ہوا ہے جبکہ وفاقی وزیرِ خزانہ نے جو بجٹ تقریر کی اس میں 22فیصد کی بجائے پنشن میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "پنشن میں 7فیصد کمی کی ڈنڈی"آخر کس کے کہنے پر اور کیوں ماری گئی۔؟ پاکستان پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر حاجی محمد ارشد چوہدری نے وزیرِ اعظم پاکستان سے مطالبہ کیا ہے ۔ کہ وہ اس اعلان کردہ پنشن میں 7فیصد کٹوتی کا فوری ازالہ کریں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے برابر بزر گ پنشنروں کی پنشن میں بھی 25فیصد کا فوری اضافہ کریں اور بزرگوں کی دعائیں لیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ابھی تک بزرگ پنشنروں کی "پنشن پر طعنہ زنی"کی جارہی ہے کہ یہ پنشن کے 1014ارب روپے معیشت پر بوجھ ہیں قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ جوملازمین قیام پاکستان کے وقت ملازم ہوئے یا 1964ءسے پہلے وہ سب ریٹائر ہو چکے ہیں ۔ ہمیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ان بزرگوں کو جنھوں نے سخت ترین حالات"میں اور"آج کے دور کی سہولتیں "میسر نہ ہونے کے باوجود بھی ملک کے انتظامی، مالیاتی اور اقتصادی شعبے کو "اپنے پاوں پر کھڑا رکھا"آج ہم ان کی "خدمات کا صلہ"یہ دے رہے ہیں کہ سب ان کی "پنشن کو معیشت پر بوجھ قرار دے رہے ہیں "۔ ہماری حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے بڑے بڑے سرکاری ادارے زبردست مالی بحران کا شکار نہیں ہوئے۔ ان بڑے اداروں میںریلویزپی آئی اے اور اسٹیل ملز جسے درجنوں ادارے شامل ہیں جن کے " اربوں کھربو ں روپے کا بوجھ "حکومت مسلسل اٹھا ررہی ہے، دوسری طرف ریکارڈ غیر ملکی قرضے اور پھر تیزی سے مسلسل بڑھتے ہوئے بجلی اور گیس کے شعبے کے گردشی قرضے، کیا "پنشن کے بوجھ"کی وجہ سے ہیں ؟ کیا اراکین پارلیمنٹ اور اعلیٰ بیورو کریسی کی موجودہ مراعات میں ہر سال بے پناہ اضافے ملکی معیشت پر بوجھ نہیں ہیں؟ دکھ کی بات یہ ہے کہ بوڑھے بزرگ پنشنروں کی قلیل پنشن کو مسلسل بوجھ قرار دینے کے بعد اب حکومت بیوہ کی فیملی پنشن اور غیر شادی شدہ بیٹی کی پنشن کے رولز تبدیل کر کے"ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے نادرفارمولے"پر عملدر آمد کا بھی سوچ رہی ہے یہ بات افسوس ناک ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود بھی حکومت ریٹائر ملازمین کی گروپ انشورنس کی اپنی رقم ابھی تک ادا نہیں کر سکی ہے جبکہ حکومت موجودہ پنشن رولز میں اور لیو اِن کیش منٹ کے رولز میں تبدیلی کر کے ریٹائر ہونے والوں کو مزید"مالی رگڑا".لگانے کے منصوبے بنا چکی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ماسوائے جماعت اسلامی کے کسی بھی سیاسی جماعت، سیاسی لیڈر ، اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ نے پنشنرز کے خلاف کیے جانے اقدامات اور پنشن میں ملازمین کی تنخواہوں کے برابر اضافے کے حق میں آواز بلند نہیں کی یہ امر نہایت تکلیف دہ ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ نے رجسٹرڈ صنعتی اداروں سے ریٹائر ہونے والے ورکروں کی بڑھاپے کی EOBIپنشن بڑھانے اوربینک پنشنرز کی منجمند شدہ پنشن کی تمام بقایا جات سمیت ادائیگی کے حوالے سے بجٹ تقریرمیں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ قارئین حیران ہوں گے کہ ریکارڈ توڑ مہنگائی کے باوجود EOBIکی پنشن صرف دس ہزار روپے ماہانہ ہے یقینا اتنی "بھاری پنشن"لے کر بوڑھے بزرگ ای او بی آئی پنشنرز "شاہانہ زندگی "گزار رہے ہوں گے ضرورت اس بات کی ہے حکومت "اسلامی تعلیمات "کے عین مطابق"بزرگوں کے حقوق "کا خیال رکھے ان کی روزمرہ کی ضروریات اور علاج معالجے کا بندوبست کرے اور سب سے بڑھ کر مہنگائی کے تناسب سے ان کی پنشن میں کم از کم 50فیصد کا فوری اضافہ کرے اور تمام ریٹائرملازمین کو گروپ انشورنس کی رقم فوراً واپس کرے ۔ ای او بی آئی کی موجودہ پنشن دس ہزار روپے کو بڑھا کر کم از کم ماہانہ اجرت 37000/- کے برابر کیا جائے۔ تمام بینکوں کے پنشنرز کی گزشتہ کئی سالوں سے منجمند پنشن تمام بقایاجات کے ساتھ فوراً ادا کرے۔ حکومت یہ بات یاد رکھے کہ اگر وہ بوڑھے پنشنروں کی ضروریات کا خیال کرے گی اور ان کی خدمت کرے گی تو پر خلوص دعائیں ان کی ا ور ملک کی قسمت بدل دیں گی ۔ حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ بوڑھے بزرگ پنشنروں کی پنشن کو "معیشت پر بوجھ"قرار دینے کی اپنی "گردان "بھی فوراًبند کرے اور "بیرونی قرضوں کو مرض سمجھتے ہوئے"ان سے چُھٹکارا حاصل کرنے کی عملی تدبیریں کریں کیونکہ "کشکول گدائی "توڑنے اور "سود سے نجات "پانے سے ہی ملک کی معیشت مضبوط ہونے اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی ممکن ہے۔

ای پیپر دی نیشن