ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
جب کسی لیڈر کو جوتا مارا جاتا ہے تو جہاں یہ ایک بد ترین جہالت ہو تی ہے ، وہیں پر یہ عوامی ری ایکشن ہو تا ہے کہ قوم اس لیڈر سے اس حد تک نفرت کر تی ہے کہ اسے جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو عوامی رد عمل میں جوتا مارا گیا۔ ابھی تو بلکل نئے وزیر اعظم بنے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے کامیابی سے ہیٹ ٹرِک کیا ہے اور انڈیا کو اپنے ادوار میں بے مثال ترقی دی ہے۔ لیکن کوئی شخص کتنا بھی کامیاب، امیر، حاجی، نمازی اور مذہب کا پیروکار کیوں نہ ہو ، جب تک اُس میں اخلاقیات، انسانیت، انصاف ، رواداری اور خدا خوفی نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی ایک اچھا انسان نہیں ہے۔ کسی بھی انسان کو اُس کے اندر کا حسد، نفرت اور زہرناکی تباہ کر دیتی ہے۔ رواں صدی میں نریندر مودی نے بھارت کو اتنی خو شحالی، ترقی، کامیابی دی ہے کہ اس وقت دنیا کے کسی بھی وزیر اعظم کا نریندر مودی سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ چین کے صدر شی جن پنگ اس حوالے سے نریندر مودی سے دس گنا آگے ہیں۔ نریندر مودی کی عظیم کامیابیوں، مذہب سے عقیدت، قوم سے محبت اور حب الوطنی کی اعلیٰ مثال کے باوجود نریندر مودی کو کروڑوں مسلمانوں ، لاکھوں سکھ، ہزاروں ہندﺅ، سینکڑوں عیسائی، درجنوں پارسی نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ نریندر مودی کے اندر ایک زہریلا انسان چھُپا ہوا ہے۔ مسلمانوں اور سکھوں سے بغض کینہ رکھنے والے اس موذی شخص کا باطن اس کے الفاظ، لہجے اور عمل سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ ایک نریندر مودی ہی کیا، ہر وہ آدمی جس کے اندر دوسروں کے لیے بُغض کینہ تعصب نفرت حسد اور جلن ہو تی ہے۔ وہ قابلِ نفرین ہے۔ نریندر مودی تو چلو ایک ہندﺅ ہے لیکن ہمارے اپنے مسلمان، اپنے پاکستانی اور اپنے ارد گرد رہنے والے کتنے زہریلے ہو تے ہیں کہ انسان کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ لوگ بیمار کیوں پڑ تے ہیں؟؟ اس کی وجہ سے لوگوں کے زہریلے رویے دوسروں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو جہالت اور خباثت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ”شادی“ جس کا مطلب ہی ”خوشی“ ہے۔ اُسے پہلے ہی دن سے زہر آلودبنادیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ساس ہوتی ہے جو ناز و نعم سے پلی ہوئی لڑکی کا و ہ حال کرتی ہے کہ لڑکی کی ساری خوشی غارت کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں ساس ایک ڈریکولا ہو تی ہے جو بہو کو خوش نہیں دیکھ سکتی۔ وہ چاہتی ہے کہ بہو کی مسکراہٹ ، خوشی، سکون سب چھین لے۔ لڑکی معصوم اور ساس جہاندیدہ، تجربہ کار چالاک ہو تی ہے جو بیٹے کے سامنے میٹھی بنی رہتی ہے مگر بیٹے کی عدم موجودگی میں بہو پر ظلم و زیادتی کرتی ہے۔ بیٹے کے سامنے محبتیں دکھائے گی اور پیچھے نفرتوں کی انتہا کر دیتی ہے۔ میں نے 1990ءسے 2006ءتک عورتوں کے حقوق کے حوالے سے دن رات کام کیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ہمارے ہاں ساس ایک سوتن سے بھی زیادہ موذی عورت ہے۔ ہر سال جو ہزاروں طلاقیں ہو تی ہیں۔ اُس میں سب سے بڑا کردار ساس کاہوتا ہے۔ 70 فیصد طلاقیں ساس کی وجہ سے، 22فیصدلڑکے کی وجہ سے جبکہ 8 صرف فیصد طلاقیں لڑکی کی وجہ سے ہوتی ہےں۔ لڑکا ماں کو مقدس، محترم اور سچّا سمجھتا ہے اور بیوی کو غلط سمجھتا ہے۔ ماں اپنے بیٹے کو اُس کی بیوی سے بد گمان رکھتی ہے۔ ہر بات میں جھوٹ بہتان الزام کا سہارا لیکر معصوم لڑکی پر ملبہ ڈالتی ہے۔ لڑکی کم عمر، معصوم اور نا تجربہ کار ہو تی ہے۔ وہُی لڑکا جو ماں کی تا بعداری، فرما نبرداری اور محبت میں پاگل ہو تا ہے۔ وہُی ماں اپنے بیٹے کا گھر اُ جاڑ دیتی ہے۔ ےہ بات اکثر لڑکوں کو تباہ ہونے کے بعد سمجھ آتی ہے۔ ہما رے پورے معاشرے میں یہ چیز ایک فساد اور عذاب کی صورت میں موجود ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیٹیوں کی مائیں ہر روز کو ئی نہ کوئی صدمہ جھیلتی ہیں۔ رات دن ٹینشن اٹھاتی ہیں۔ وہ ڈیپریشن میں چلی جاتی ہیںاور نتیجے کے طور پر بیمار پڑ جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو مائیں اپنی معصوم بیٹیوں کے ساتھ ظلم زیادتی جبر دیکھ کر مر بھی جاتی ہیں لیکن لڑکے کی ماں کی پھر بھی تسلی نہیں ہوتی۔ وہ ہر وقت بہو کو جوتے کی نوک پر رکھنا چاہتی ہے۔ بے وقوف لڑکے اپنی ماﺅں کی سازشوں سے اپنا گھر خراب کر لیتے ہیں اورعقلمند اپنا گھر بچا لیتے ہیں۔ پاکستان میں بہت زیادہ جہالت اور افراط و تفریط ہے۔ خون کے رشتوں میں بھی زہر ناکیاں ہیں۔ اگر ایک بھائی خوشحال ہے تو باقی بھائی اندر ہی اندر حسد کرتے یا لوٹ مار کی کوشیشں کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک بہن بھی دوسری بہن کی قسمت سے جلتی ہے۔ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اُن کی اخلاقیات تباہ ہوتی ہیں۔ اُن کی زبان گندی ہو تی ہے۔ جس گھر میں گا لیاں دی جاتی ہےں، بہتان طرازی ہوتی ہے، فساد جھگڑے ہوتے ہیں اور ہر وقت عورتیں چغلیاں غیبتیں کرتی ہیں۔ اُس گھر سے جلد رزق اُڑ جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اکثر گھروں میں ایسا رواج پڑ گیا ہے۔ ہر وہ شخص جو اپنے بچپن میں پیسہ نہیں دیکھتا، وہ نو دولتیا بن کر ہر وقت نمود و نمائش اور دوسروں کو جوتے کی نوک پر رکھنے کی کو شش کرتا ہے۔ پیسہ نہ ہونے پر پہلے جس کی کو ئی بات تک نہیں سُنتا تھا۔ اب اُسی کی خو شامد چا پلوسی ہونے لگتی ہے۔ لہجوں میں مٹھاس آجاتی ہے لیکن جو نہی ہاتھ سے پیسہ نکل جائے اور بھائی بہن سے مدد کی ضرورت پڑ جائے تو وہ نفرت حقارت سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کا حال دیکھ لیں جب کسی سیاستدان پر زوال آتا ہے تو کوئی اُسے نہیں پو چھتا۔ کو ئی منہ لگا نا پسند نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں اخلاقی زوال کا یہ عالم ہے کہ سب دولت اور طاقت کے پُجاری ہیں۔ وُہی شخص جو کل تک کسی اچھے عہدے پر تھا اور سب کے کام آتا تھا۔ جو نہی ریٹا ئر ہو تا ہے تو لوگ بلکہ رشتہ دار اُس سے ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے اُس کی ریٹا ئرمنٹ نہیں ہوئی بلکہ اُسے کوڑھ ہو گئی ہے۔ حالانکہ اگر کو ئی شخص اٹھارویں، بیسویں گریڈ میں ریٹا ئر ہوا ہے تو کسی قسم کا کوئی فرق تو اُس کی فیملی کو پڑتا ہے مگر سگے رشتے دار بھی اُسے اچھوت سمجھنے لگتے ہیں۔ جو لوگ بات بات پر فرشی سلام کرتے تھے۔ اب عید بقر عید پر بھی سلام دعا کرتے موت پڑتی ہے۔ اور وُہی سیاستدان جسے بُرے وقت میں کوئی منہ نہیں لگا تا تھا۔ اقتدار کے ایوانوں میں جاتے ہی بد مست ہاتھی، ہٹلر اور فرعون بن جاتا ہے۔ جبکہ دو چار سالوں میں پھر اُسے اقتدار سے دھکیل کر پسِ منظر اور تنہایوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ پارلیمنٹ جو قوم کا چہرہ ہے۔ وہاں اتنی گندی پلید لچّر زبان بولی جاتی ہے جیسے کوئی بدزبان عورت یا فا حشہ گا لم گلوچ کرتی ہے۔ ایک طرف غیرت کے نام پر بیوی بیٹی بہن کو قتل کر دیا جاتا ہے تو دوسری طرف دو اور چار سال کی کلی کو بے رحمی درندگی سے مَسل دیا جاتا ہے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر قتل کر دئیے جاتے ہیں۔ اغواءزیادتی ڈکیتی تو اب معمول کے قصے ہیں۔ یہ سب انسان کے اندر کی وحشت ہے۔ بربریت اور زہرناکی ہے۔ جن کی تربیت نہ ہو، جنھیں رشتوں کا احساس نہ ہو، جن میں اچھے برے کی تمیز نہ ہو، ایسے لوگوں کی زندگی درندوں جیسی ہوتی ہے۔ ان سفا کانہ رویوں کے پیچھے دوسروں کو جھکانا، نیچا دکھانا اور جوتے کی نوک پر رکھنا ہی گھناﺅنا مقصد ہو تا ہے۔