سانحہ سوات' معاشرہ کس طر ف چل پڑا

Jun 26, 2024

امتیاز اقدس گورایا

بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

''ہم شرمندہ ہیں ، ہمارے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں'' عیدالضحیٰ کے تین روز بعد سوات میں ایک ایسے واقعے بلکہ حادثے نے جنم لیا جس نے پاکستانی سماج کو ہلا کر رکھ دیا، یہ قائداعظم کے پرامن پاکستان میں رخنہ ڈالنے اور اسے اخلاقی طور پر کمزور کرنے کی ایسی کوشش بلکہ سازش ہے جس کے اثرات دیر تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ 20 جون 2024 کو بے قابو اور مشتعل ہجوم نے تھانہ سوات پر بلوہ کیا، زیر حراست ملزم چھڑایا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا تصور کرکے بھی روح کانپ جاتی ہے۔ کچھ دیر کے لیے سوچیں 2021 کے دوران سیالکوٹ میں سری لنکن مہمان منیجر پر مانتھا کمارا کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جاتا ، ساہیوال میں مشتعل گروہ کے ہاتھوں انسانی قتل کا اعلی سطح پر نوٹس لے لیا جاتا توسوات میں ملزم کو خود مار کر اس کی لاش سے بہیمانہ سلوک کا دل سوز واقعہ نہ ہوتا۔ ہم بحیثیت قوم شرمشار ہیں ہمارے پاس اس حادثہ کی کوئی توجیع ،کوئی دلیل نہیں۔ یہ جاں لیوا منظر اس سرزمین میں ہوا جس کا حصول کلمہ طیبہ کی بنیاد پر 14 اگست 1947 کو ممکن ہوا۔ اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کرتے ہوئے عہد کیا گیا تھا کہ یہاں سب شہری برابر ہیں اور سب کو امن نصیب ہوگا۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ جرم کرے تو اور وہ جرم ثابت ہو جائے تو سزا وجزا کا میکنزم موجود ہے۔عدالتوں کے ذریعے ملزمان کو سزا دینے کا سلسلہ ازل سے قائم ہے اور آئندہ بھی یہ عمل جاری وساری رہے گا۔کسی گروہ ' جماعت یا سماج کو سزا اور جزاءدینے کا اختیار ہے نہ اس طرح کے قدم سے سماج پر نقب لگائی جاسکتی ہے!! 
22 جون کو قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن کی کاررروائی کے دوران بحث روک کر وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال نے سوات واقعہ پر دردمندانہ اور فکر انگیز خطاب کرکے اسے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ناکامی قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ ایک تسلسل سے مشتعل ہجھوم کے ہاتھوں سڑکوں پر انسانیت سوز سلوک کے واقعات نمودار ہورہے ہیں جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے ایسے واقعات بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ تواتر سے ہورہے ہیں مگر سوات حادثہ کو پڑوسی ملک جس طرح پیش کررہا اس پر غور کرنا اجتماعی دانش کا تقاضا ہے…1984 میں پہلا قابل ذکر توہین رسالت کا مقدمہ ا سلامت مسیح اور اس کے چچا رحمت مسیح کے خلاف درج کیا گیا۔ ایک عیسائی خاتون کو2009 میں توہین مذہب کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔ اگرچہ ایک طویل قانونی جنگ کے بعد، اسے 2018 میں سپریم کورٹ نے بری کر دیا لیکن حکومت کی طرف سے کیے گئے ان فیصلوں کے نتیجے میں دو سخت اور خطرناک قسم کے ردّعمل سامنے آئے۔ جنوری 2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا واقعہ ہوا۔ 2022 میں ضلع خانیوال کے دماغی طور پر بیمار شخص کو مبینہ طور پرمقدس اوراق جلانے کے جرم میں ہجوم نے اذیت ناک موت دی۔۔ پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں قتل کے واقعات نے ملک کے سماجی، سیاسی اور معاشی تانے بانے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مذہبی جوش، قانونی ناپختگی اور سماجی و سیاسی حرکیات کے امتزاج سے چلنے والا یہ رجحان دور رس اور کثیر جہتی نتائج کا حامل ہے۔ یہ نتائج نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی شبیہ کو داغدار کرتے ہیں بلکہ ملک کے اندر قانون کی حکمرانی، سماجی ہم آہنگی اور انسانی حقوق کو بھی بری طرح مجروح کرتے ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کا سب سے فوری اور گہرا اثر قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہے۔ جب ہجوم انصاف کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، تو اس سے قانونی نظام کمزور پڑ جاتا ہے تو خطرناک مثال قائم ہوتی ہے۔ایسے واقعات اسلامی تعلیمات کے بالکل متصادم ہیں، جب مذہبی جوش پرستی بنیادی اسلامی اصولوں پر غالب آجاتی ہے، تو اس سے نہ صرف عقیدے کی غلط تشریح ہوتی ہے بلکہ انتہا پسندانہ نظریات کو بھی ہوا ملتی ہے۔ 
توہین مذہب کے نام پر سوات میں پیش آنے والا المناک واقعہ، ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنے والے بنیادی عوامل اور حقیقی ذمہ داران کی تنقیدی جانچ کا مطالبہ کرتا ہے۔ مستقبل میں ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے ان حقیقی مجرموں کی نشاندہی اور ان کا احتساب بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق ہلاکتیں ایک المناک اور مستقل مسئلہ بن چکی ہیں، جو مذہبی انتہا پسندی، ناکافی قانونی فریم ورک، اور سماجی و سیاسی حرکیات کے امتزاج کی وجہ سے ہیں۔ ایسے واقعات کو مو¿ثر طریقے سے روکنے کے لیے، ایک جامع، کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ اس نقطہ نظر میں قانونی اصلاحات، تعلیمی اقدامات، کمیونٹی کی شمولیت، ریاستی اداروں کی مضبوطی، اور بین الاقوامی تعاون شامل ہونا چاہیے۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کو اکثر ذاتی مفادات طے کرنے، اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ جھوٹے الزامات کے خلاف سخت حفاظتی اقدامات شامل کرنے کے لیے ان قوانین پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ اس میں کوئی بھی باضابطہ الزامات عائد کیے جانے سے پہلے لازمی ابتدائی تحقیقات اور جھوٹے الزام لگانے والوں کے لیے سخت سزائیں شامل ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ توہین مذہب کے مقدمات کو خصوصی طور پر اعلیٰ عدالتیں ہینڈل کریں۔ توہین رسالت کے مقدمات کو فوری اور منصفانہ طریقے سے نمٹانے کے لیے عدلیہ کو بااختیار بنایا جائے اور مناسب وسائل فراہم کیے جائیں۔ تربیت یافتہ ججوں کے ساتھ خصوصی ٹربیونلز قائم کیے جائیں تاکہ مناسب کارروائی کو یقینی بناتے ہوئے ان مقدمات کو تیز کیا جاسکے۔ ملزمان کو قانونی مدد فراہم کی جانی چاہیے، اور ان کے منصفانہ ٹرائل کے حق کو سختی سے برقرار رکھا جانا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس توہین مذہب کے الزامات کو حساس اور مو¿ثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اکثر تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ انسانی حقوق، مذہبی حساسیت، اور قانونی پروٹوکول پر مرکوز جامع تربیتی پروگرام ضروری ہیں۔ افسران کو ہجوم کم کرنے اور ملزم کو بحفاظت بچانے کی پوری تربیت اور وسائل دینے چاہیے۔ پولیس اور مقامی حکام کو توہین مذہب کا الزام لگانے والے افراد کی حفاظت میں ناکامی کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔
 وزارت تعلیم' مذہبی امور، خارجہ امور' رحمت لعالمین اتھارٹی' اسلامی نظریاتی کونسل' خانقاہوں' درگاہوں' ایچ ای سی ' وائس چانسلرز صاحبان ' علما کرام' مشائخ عظام' اساتذہ کمیونٹی اور سب سے بڑھ کر والدین کو مشترکہ طورپر قدم اٹھانا پڑے گا۔ ہمیں نئی نسل کی اخلاقی تربیت کے نظام پر نظرثانی کرنا ہوگی انہیں برداشت' عدم برداشت اور رواداری کا سبق یاد کرانا ہے۔ اگر ہمارے ''بڑوں'' نے یہ موقع ضائع کر دیا تو غصہ اور عدم برداشت کی آگ سب کچھ جلا کر بھسم کر دے گی!!

مزیدخبریں