باز گشت …طارق محمود مرزا، آسٹریلیا
tariqmmirza@hotmail.com
اقبال کے فلسفہ خودی اور اس سے متعلقہ بحث کا ماحَصل یہ ہے کہ اقبال عام انسان کو مردِ مومن اور مردِ کامل دیکھنے کے متمنّی تھے۔ وہ انسان جو نیابتِ الٰہی کے قرآنی تصوّر کے عین مطابق ہو۔ اس کی ہمّت، طاقت اور ارادے کی قوّت ایمان سے مشروط ہو۔ اس ایمان سے جو ایک اللہ کے سوا کسی اور معبود کی طرف نہ دیکھتا ہو۔ جس میں اللہ تمام جہانوں کا مالک ہے۔ اس کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ وہی الٰہ ہے، وہی معبود ہے اور تمام طاقتوں کا سر چشمہ ہے۔ اس پر ایمان اور اس کی عبودیت سے انسان دنیا کے تمام جعلی خداﺅں کے آگے جھکنے، ان سے ڈرنے اور ان سے مانگنے سے بچ جاتا ہے۔ اللہ کی مشیّت کے بغیر ارض و سما اور اس میں موجود کوئی شے جنبش تک نہیں کر سکتی۔ شمس و قمر سمیت کائنات کا تمام نظام اس کے اشارہِ اَبرو کا محتاج ہے۔ قرآن جہاں اللہ کی اس طاقت اور خدائی کا اظہار کرتا ہے وہاں وہی اللہ انسان کو مسجودالملائک بنا کر اپنی خدائی میں سے ایک حصہ بخشتا ہے۔ اسے اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر اتارتا ہے اور اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ خدا کی خدائی میں اس محدود شرکت میں کوئی تضاد محسوس نہیں ہونا چاہیے۔ اس نے اپنی مرضی اور اپنی منشا سے اپنے بندوں کو اپنے نائب، اپنا خلیفہ، اپنا وزیر بنا کر بہت سے اختیارات سے بھی نواز رکھا ہے۔ بادشاہی بے شک اسی کی ہے اور رہے گی۔ مگر یہ خلیفہ بھی اتنا بے اختیار نہیں ہے۔ اسے بھی خدا نے اپنا راستہ چننے کا اختیار دیا ہے۔ اسے نیکی اور بدی کا فرق سمجھا کر آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ امتحان ہے اس خلیفہ کا، نائب کا۔ مگر یہ اختیار بھی ہے۔ اقبال نے فرمایا تھا کہ اللہ کے دیے گئے اختیار کو اس طرح استعمال کرو کہ خدا بھی آپ کی مرضی دریافت کرے۔ یہ اللہ اور بندے کے درمیان مضبوط تعلق اور انسان کی عظمت دونوں کی دلالت کرتا ہے۔اقبال نے ہمیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ انسان کی یہ تمام طاقت اور اختیار اللہ کا خلیفہ اور بندہ بن کررہنے میں ہے۔ جس دن اس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے سر جھکا دیا اس دن اس کا مقام اورمرتبہ بھی دھڑام سے گر جاتا ہے۔اقبال نے کس قدر واشگاف انداز میں بتا دیا ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یہ گراں سمجھا جانے والا سجدہ دراصل رِفعت اور عظمت پر لے جانے والا سجدہ ہے۔ ذلت اور رسوائی سے نجات کا سجدہ ہے۔ گویا خودی کے حصول اور استحکام کے لیے خدا کا دامن تھامے رکھنا، صرف اسی سے لو لگا کر رکھنا، اسی کو تمام طاقت کا سر چشمہ سمجھنا اور صرف اس کے آگے سر جھکانا ہے۔ خودی کا سرِ نہاںہے لا الہ الا اللہ۔ یہ دنیا کا مال دولت، یہ دنیاوی جاہ و حشمت، یہ عارضی حکومت اور طاقت اور جعلی اور جھوٹے خدا، خودی کی راہ میں روڑے ہیں۔ عرفانِ ذات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ جبکہ اللہ سے براہِ راست تعلق اسے مضبوط و توانا بناتا ہے۔ حتی کہ اللہ کے اتنے قریب کر دیتا ہے کہ انسان کو دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کر سکتی۔ اس کی خود آگہی، وجدان اور سوز و گداز اسے نورِ معرفت عطا کر دیتا ہے جس سے بڑی نعمت کوئی نہیں ہے۔اقبال نے جس خودی کا پیام دیا ہے وہ بیک وقت انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی، دنیاوی بھی ہے اور آخروی بھی۔ جہاں انھوں نے دنیا میں کامیاب اور بھرپور زندگی گزرنے کا درس دیا ہے وہاں آخرت کی تیاری اور اصل امتحان کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گمان لا الہ الا اللہ
یہ اس فقر کی طرف اشارہ ہے جو خودی کی تربیت کا حصہ ہے۔ یہ فقر انسان کو ایسی شانِ بے نیازی اور استغنی عطا کر دیتا ہے کہ شاہی بھی اس کی نظر میں ہیچ ہے۔اقبال کا رسول اللہ سے جو عشق اور عقیدت کا رشتہ ہے وہ بھی ان کی تعلیم اور پیام کی بنیاد میں شامل ہے۔ اللہ کے نبی کی تعلیم اور ان کا اسوہ حسنہ دراصل تکمیل انسانیت کا سبق ہے اور اقبال جذباتی اور عقلی دونوں طرح اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ عشقِ رسول سے ان کا کلام مزیّن ہے۔مگر وہ انسان کی سرشت اور اس کے باطن سے زیادہ بحث کرتے ہیں۔ اس بحث کا نتیجہ اور سبق یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں انسان کی فلاح مضمر ہے۔اگر خودی کے دونوں مقاصد دنیوی اور اخروی کا جائزہ لیا جائے تو دونوں مقاصد بالآخر ایک ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں طاقت اور اختیار کا منبع اِقتدار سمجھا جاتا ہے۔ طاقت کے باقی مظاہر اس سے مربوط ہیں۔ اس کے مقابل اخروی طاقت کے طلبگار دنیاوی اقتدار سے بے نیاز ہو کر اپنے باطن کو روشنی، حرارت اور توانائی سے مزین کرتے ہیں۔ وہ دنیا کے جاہ و جلال کی پرواہ نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے دل عشق و فقر سے سرشار ہوتے ہیں۔نبی پاکﷺ کو طاقت کی یہ دونوں جہتیں حاصل تھیں۔ ایک جانب وہ ریاستِ مدینہ کے سربراہ تھے اور دوسری جانب شب بھر خالق سے راز و نیاز کرتے تھے۔ دن بھر امور مملکت میں مصروف رہتے اور رات عبادت میں گزرتی۔ ان کا زہد اور ان کا تقویٰ مثالی ہے۔سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی۔ دنیا کے تقاضے بھی بحسن و خوبی نبھائے اور دین کے قیام اور سر بلندی کے لیے بھی زندگی وقف کیے رکھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خودی صرف ذات کی نگہداشت اور نشوونما تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اسے خاندان، معاشرے اور ملک و ملت تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اقبال کے نزدیک سچا فقر یہی ہے کہ دنیا بھی حاصل ہو مگر اس کی زیادہ پروا نہ ہو۔ اس سے بے نیازی ہو۔ ان کا تصوّرِ فقر کس قدر منفرد ہے:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ
اقبال کے نزدیک مقصد سب سے اہم ہے۔ اگر طاقت و اقتدار ہی مقصد ہے تو فرعون سے لے کر سکندر اور ہلاکو جیسی شخصیت بننے کے امکان ہیں۔ اگر صرف فقر و فاقہ ہی مقصد ہے تو خانقاہوں، درباروں اور عبادت گاہوں میں بے شمار لوگ پڑے ہوئے ہیں۔ مگر اقبال بامقصد راہ پر چلنے والوں کو اصل بندہِ مومن سمجھتے ہیں جو رزمِ حق و باطل ہو تو فولادِ نظر آئے اور حلقہِ یاراں میں ہو تو ریشم کی طرح گداز ہو جائے۔ اس کے جاہ و جلال سے دشمن لرزہ براندام ہوں مگر اس کی خدا خوفی بے مثل ہو۔ اس کا انصاف سب کو حاصل ہو۔
ایسی مثالیں صحابہ کرام میں بکثرت ملتی ہیں۔ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں حضرت ابوعبیدہ کی قیادت میں اسلامی لشکر بیت المقدس فتح کرنے گیا تو عیسائیوں نے جنگ بندی اور بیت المقدس کی حوالگی کے لیے خلیفہِ وقت حضرت عمر فاروق کی موجودگی کی شرط رکھی۔ حضرت ابو عبیدہ نے مناسب سمجھا کہ کشت و خون سے بچا جائے اور حضرت عمر کو مکتوب لکھا۔ حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ کیا اور حضرت علی کے مشورے پر بیت المقدس جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ خلیفہ وقت کا سفر اس انداز میں تھا کہ ان کے پاس ستوﺅں کا ایک تھیلا،
ایک اونٹ، ایک غلام اور ایک لکڑی کا پیالہ تھا۔ سفر کی سادگی اور جفاکشی بے مثل و بے نظیر تھی۔ کبھی غلام اونٹ کی مہار پکڑ کر چلتا اور فاروقِ اعظم اونٹ پر سوار ہوتے اور کبھی حضرت عمر اونٹ کی مہار پکڑ کر چلتے اور غلام اونٹ پر سوار ہوتا۔ یہ جفا کشی، یہ عدل اور یہ فقر وقت کے عظیم ترین حاکم کا تھا جس کی فوجیں قیصر و کسریٰ کے محلات روند چکی تھیں۔ یہ فقر، خودی اور خدا سے تعلق کی بہترین مثال ہے۔ ایسے انسان کا مطلوب و مقصود رضائے الٰہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جو لا الہ الا اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ انھیں نہ دنیاوی جاہ و حشمت کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ خدا کے علاوہ کسی اور کا خوف ہوتا ہے۔یہی وہی عظمت ِانسانی ہے جو مدّعائے اقبال ہے۔
فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ
Jun 26, 2024