پاکستان اور بھارت کے مابین اہم ترین تنازعات میں سے ایک پانی کا تنازعہ ہے جس کا حل نکالنے کے لیے دونوں ملکوں نے 19 ستمبر 1960ء کو سندھ طاس معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک کے مابین دریائے سندھ اور دوسرے دریاو¿ں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم ہوگا۔ بھارت اس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے جس کی وجہ سے اس مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بھی جنم لیتی رہی ہے۔ علاوہ ازیں، بھارت نے ایسے کئی آبی منصوبے بھی شروع کیے ہیں جو متنازع ہیں اور اس معاہدے کی خلاف ورزی شمار کیے جاتے ہیں۔ ان متنازع بھارتی آبی منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد مقبوضہ کشمیر پہنچا ہے۔ اس وفد کی سربراہی سیکرٹری آبی وسائل مرتضیٰ علی شاہ کر رہے ہیں۔ وفد میں انڈس واٹر کمشنر، نیسپاک، واپڈا کے نمائندے اور لیگل حکام شامل ہیں۔ وفد مقبوضہ کشمیر میں مختلف متنازعہ آبی منصوبوں کا دورہ کرے گا۔ مون سون میں مقبوضہ کشمیر سے پانی سے متعلق وارننگ سسٹم پر بات چیت ہوگی۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ اس دوران بھارتی متنازعہ آبی منصوبوں سے متعلق اعتراضات سے آگاہ کیا جائے گا۔ پاکستانی وفد نے دورے کے پہلے مرحلے میں کشتوڑا کا دورہ کیا۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد شروع کیے گئے بھارت کے تمام آبی منصوبے اس معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اس نے پاکستان کی جانب آنے والے دریاو¿ں پر چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو بے آب و گیاہ دھرتی بنانے کی کوشش کی۔ ان ڈیموں کو وہ پاکستان میں آبی دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں مقدمات کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والے وفد کو اس بارے میں ایک جامع رپورٹ تیار کر کے دنیا کے سامنے رکھنی چاہیے تاکہ بھارت کا دہشت گرد اور مکروہ چہرہ مزید بے نقاب کیا جاسکے۔