بجٹ میں عوام کو ریلیف کیلئے سینٹ کی مناسب سفارشات

سینٹ نے بجٹ سفارشات منظور کر لیں۔ سینٹ نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کی سفارش کردی۔ نئے فنانس بل 2024ءکے حوالے سے 128 سفارشات پیش کی گئیں جو ایوان بالا نے قائمہ کمیٹی خزانہ کی سفارش پر قومی اسمبلی کو بھیج دیں۔سینٹ میں نیوز پرنٹ پر 10 فیصد جی ایس ٹی کی تجویز واپس لینے، مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 45 ہزار روپے مقرر کرنےکی سفارش بھی منظور کی گئی ہے۔ سفارشات میں کہا گیا کہ بلا واسطہ محصولات آدھے کیے جائیں۔زرعی اکانومی پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ واپس لیا جائے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے پر نظرثانی کی جائے۔ کم تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس نہ لگایا جائے۔آئی ٹی کمپنیوں پر ڈبل ٹیکس کو ختم کیا جائے۔ موبائل فون پربھی اضافی ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔
 مالی سال 25-2024ءکا بجٹ آئی ایم ایف کی سفارشات کی روشنی میں بنایا گیا جس کا اعتراف حکومتی اکابرین کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی حیثیت ساہو کار جیسی ہے جسے اپنے قرض کی واپسی بمع سود سے غرض ہوتی ہے۔ قرض خواہ واپسی کا کیسے انتظام کرتا ہے سود کی مد میں کیسے ادائیگی کرنی ہے اس سے ساہوکار کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا مگر عالمی مالیاتی ادارے ایسے ساہوکار ہیں جو باقاعدہ ڈکٹیٹ کرتے اور ایڈوانس شرائط عائد کرتے ہیں کہ ہمارا قرض لوٹانے کیلئے یہ کچھ کرنا ہوگا: ٹیکسوں میں اضافہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ اب تو آئی ایم ایف کی جانب سے اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بڑھانے کی ہدایات بھی دی جاتی ہیں۔ ہماری حکومتیں شرائط پر عمل کرنے کیلئے مجبور ہوتی ہیں دوسری صورت میں قرض سے انکار اور بھوکوں مرنے کا ڈر۔ حالانکہ روزی کا وعدہ اللہ کی طرف سے کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ کمانے والے کو اللہ کا دوست بھی کہا گیا ہے۔
 پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے اور اس کے ساتھ اسلامی جمہوریہ بھی ہے۔ یہ دو چیزیں اکٹھی ہوتی ہیں تو ریاست ماں جیسی ہو جاتی ہے جس نے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا ہوتا ہے مگر آج عوام کی حالت سب کے سامنے ہے ،مہنگائی بے روزگاری کا طومار ہے۔ تعلیم صحت کی سہولیات ناپید، ٹیکسوں کی بھرمار۔ یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے جو وسائل سے مالا مال ہے مگر یہ وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئے ہیں جس کے باعث کچھ لوگوں کی امارت کے پیمانے چھلک چھلک جاتے ہیں اور کچھ طبقات پس کر رہ گئے ہیں۔ اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کی طرف توجہ دی جائے تو پاکستان میں غربت کا خاتمہ اور قرضوں سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ پاکستان ترقی و خوشحالی کی منزل پر پہنچ سکتا ہے۔
قومی اخراجات میں بچت کیلئے حالیہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ اب اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل کے لیے ایک اور کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ایک کمیٹی گزشتہ دور میں وزیراعظم شہباز شریف نے ناصرخان کھوسہ کی سربراہی میں بنائی تھی۔اس کمیٹی کی سفارشات پر ہی عمل ہو جائے تو عوام کوبہت بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔اس کمیٹی کی سفارشات میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ایک ہزار ارب روپے سالانہ بچت کی جا سکتی ہے۔پچھلے برس اقوام متحدہ کے یو این ڈی پی یونائٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں سالانہ سترہ اعشاریہ چار ارب ڈالر اشرافیہ کی مراعات پر خرچ کیے جاتے ہیں۔جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں میں بجلی گیس پر سبسڈی، مفت پٹرول اور پلاٹ شامل ہیں۔
حکمرانوں کی طرف سے مہنگائی بے روزگاری اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی عام آدمی کیلئے سہولیات کے فقدان کا اعتراف کیا جاتا ہے مگر اس کے حل کی کوئی تدبیر نہیں کی جاتی۔پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اسی تناسب سے مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے۔ بجلی کی قیمتیں تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں پیٹرولیم کی قیمتوں میں کبھی کمی ہوتی ہے تو اس تناسب سے مہنگائی کبھی نیچے نہیں آئی۔اس پر نظر رکھنا پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا کام ہے۔ وہ موجود ہیں لیکن کارکردگی کے حوالے سے کہیں ہیں کہ نہیں ہیں والی صورتحال ہے۔
 پاکستان میں ضرورت سے 20 فیصد زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے مگر ترسیلی سسٹم اتنا ناکارہ ہو چکا ہے کہ صلاحیت کے مطابق پیداوار کا نصف ہی صارفین تک پہنچ پاتا ہے جس کی وجہ سے بدترین لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔دوسرا ستم آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی صورت میں صارفین پر ہو رہا ہے۔ وہ بجلی پیدا کریں نہ کریں مگر ان کو معاہدوں کے مطابق کپیسٹی پیمنٹ ملتی رہتی ہے۔ سینٹ کی طرف سے ان معاہدوں پر نظر ثانی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ری نیوئل انرجی یعنی قابل تجدید توانائی کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس توانائی میں ہائیڈل ونڈ اور سولر شامل ہیں۔ہائیڈل سسٹم سے آج بھی دو ڈھائی روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جبکہ سولر اس سے بھی سستی بجلی کی پیداوار کا ذریعہ ہے۔سولر کیلئے ترسیلی سسٹم کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
سینٹ میں محصولات کی قائمہ کمیٹی کے چئیرمین سلیم مانڈوی والا نے نشاندہی کی کہ18.9کھرب روپے کے بجٹ میں سے 9 کھرب سے زیادہ سود کی ادائیگی میں صرف کرتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت پر اتفاق کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والا وقت مزید مشکل ہو گا۔ ملکی معیشت مضبوط ہو گی تو ملک مضبوط ہو گا۔ کیا ہمارے سیاست دان اختلافات سے بالاتر ہو کر عوام کی زندگیاں آسان بنانے کے لیے میثاق معیشت کی طرف آئیں گے ؟
سینٹ کی طرف سے بجٹ کے حوالے سے مناسب اور قابل عمل تجاویز دی گئی ہیں۔ان کے مطابق حکومت بجٹ میں رد و بدل کر کے عوام کو ریلیف دے سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن