اس وقت قومی اسمبلی میں مجوزہ قومی بجٹ پر بحث آخری مراحل میں ہے۔ بجٹ کی منظوری کیلئے مسلم لیگ (ن) کے اپنی حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ معاملات طے ہو چکے ہیں اس لئے سرکاری بنچوں پر موجود ان دونوں جماعتوں کے ارکان اپوزیشن کے بعض ارکان کو ترغیب و تحریص اور زور زبردستی سے اپنے ساتھ ملا کر دوتہائی اکثریت کے ساتھ بجٹ کی منظوری کیلئے بلند آواز میں ”ہاں“ کہہ دیں گے کیونکہ بجٹ میں انکے اپنے مفادات پر تو کوئی ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ اللہ اللہ خیرسلا۔ ”آئینہ لے کے تو دیکھو‘ ابھی بگڑا کیا ہے“۔
میں نے گزشتہ روز کے کالم میں سلطانی جمہور کے ہاتھوں جمہور (راندہ درگاہ عوام) کی درگت بننے اور اس سسٹم کی بنیاد پر اس ملک خدا داد کی ترقی معکوس کی کچھ جھلکیاں پیش کی تھیں۔ اس سے تھوڑا سا آگے بڑھیں تو ترمیم و توسیع شدہ پیکا آرڈیننس غصیلی نگاہوں کے ساتھ گھورتا نظر آتا ہے۔ مگر آج مجھے سینیٹ کی جانب سے مجوزہ قومی بجٹ میں ردوبدل کیلئے منظور کی گئی سفارشات پر اظہار خیال کی آزادی کیلئے کافی حوصلہ ملا کیونکہ یہ سفارشات بہرحال سینیٹ کے سرکاری بنچوں کے ووٹ کے ساتھ منظور کی گئی ہیں جس سے ثابت ہوا کہ سرکاری بنچوں پر بیٹھے ارکان محض انگوٹھا چھاپ اور گھوگھو گھوڑے نہیں ہیں بلکہ اپنی ہی حکومت کے تجویز کردہ بجٹ میں سلطانی جمہور کے ستون جمہور کی درگت بنتی دیکھ کر اپنے مافی الضمیر کے اظہار کیلئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ سو اس پر مجھے بھی کافی حوصلہ ہوا اور میں راندہ درگاہ عوام کے ساتھ بجلی کی سپلائی کی سرکاری کمپنیوں کی جانب سے بجلی بلوں کی صورت میں کی جانیوالی ڈکیتی کی تفصیلات اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی گستاخی کا مرتکب ہونے کی جرات کررہا ہوں۔
سینیٹ نے اپنی جو 128 سفارشات باضابطہ طور پر منظور کرکے قومی اسمبلی کو بھجوائی ہیں‘ ان میں نجی پاور کمپنیوں (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی‘ تنخواہ پر تجویز کردہ ٹیکس کم کرنے‘ کم از کم اجرت 45 ہزار روپے مقرر کرنے‘ سرکاری ہسپتالوں کے آلات‘ ادویات‘ نیوز پرنٹ پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دینے‘ موٹر سائیکلوں کیلئے سستا پٹرول فراہم کرنے اور بچوں کے دودھ سے ٹیکس ختم کرنے سمیت متعدد ایسی سفارشات شامل ہیں جن کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں زیربحث بجٹ کو ازسرنو مرتب کرکے عام آدمی پر ڈالا جانے والا بوجھ قدرے کم کیا جا سکتا ہے۔ فنانس بل تو بہرحال قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہونا ہوتا ہے۔ سینیٹ کی دو تہائی اکثریت نے اپنی پیش کردہ سفارشات کے ساتھ ہی بجٹ منظور کرنے کا عندیہ دیا ہے چنانچہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ سینیٹ کی بھجوائی گئی سفارشات کو بجٹ کا حصہ بنایا جائیگا۔
سینیٹ ہی نہیں‘ قومی اسمبلی میں بھی بالخصوص سرکاری بنچوں پر موجود حکمران مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے ارکان مجوزہ بجٹ کے من و عن منظور ہونے کی صورت میں اٹھنے والے ممکنہ طوفان کا سیاپا کر رہے ہیں اس لئے حکومت کو بہرحال فنانس بل کی دستاویز میں کچھ نہ کچھ ردوبدل کرکے اسکے عوام دوست بجٹ ہونے کا تاثر دینا پڑیگا۔ مگر اس بجٹ کے باہر نجی پاور کمپنیوں‘ بجلی کی ترسیل کرنے والے سرکاری اداروں‘ لیسکو‘ فیسکو‘ پیپکو، گیپکو، ہیسکو اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) نے مجبور و بے بس عوام کو ”رولنے‘ مدھولنے“ کا جو شتربے مہار سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اسی طرح گیس اور پانی کی سپلائی کے متعلقہ سرکاری اداروں کی من مانیوں کا سلسلہ جس بے رحمانہ انداز میں جاری ہے اور پھر ناجائز منافع خور مافیاز نے‘ جن کے قلابے اقتدار کے ایوانوں تک جا ملتے ہیں‘ ریاستی اتھارٹی کو کھلم کھلا چیلنج کرتے ہوئے عوام کے ساتھ لوٹ مار کا سلسلہ جس سفاکی کے ساتھ شروع کر رکھا ہے‘ وہ بجٹ میں کچھ نہ کچھ اصلاحات کے باوجود عوام کو عزت نفس کے ساتھ زندہ رہنے کے بھلا قابل کہاں چھوڑیں گے۔ بجلی سپلائی کرنے والے سرکاری ادارے تو لوٹ مار والی دیدہ دلیری کیلئے سرکار کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے جس کی صرف ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بجلی کے استعمال کے مختلف سلیبز کے ذریعے صارفین پر ناجائز سے بھی کچھ زیادہ بوجھ ڈالنے سے متعلق ہے۔ ان سلیبز کے تحت اگر کسی صارف نے ایک ماہ میں دو سو یونٹ بجلی استعمال کی ہے تو اس کا بل 3083 روپے کا بنے گا مگر اسکے صرف شدہ یونٹس میں صرف ایک یونٹ کا اضافہ ہو جائے تو یہ ایک یونٹ صارف کا بل 8154 روپے تک پہنچا دیگا یعنی 200 سے صرف ایک اضافی یونٹ کے صارف سے 5071 روپے زائد وصول کئے جائیں گے۔ اب ان سپلائی کمپنیوں کی سیدھی سیدھی دیدہ دلیری مشاہدہ فرمائیے کہ اگر کسی صارف کے میٹر کی ریڈنگ کے وقت اسکے استعمال شدہ یونٹ 198‘ 199 یا 200 ہوں تو اسکے بل میں صرف شدہ یونٹ از خود 201 بنا کر اسے نئے سلیب کے تحت 8154 روپے کا بل بھجوایا جائیگا۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ استعمال شدہ یونٹوں کی بنیاد پر تبدیل ہوتے سلیبز کے ذریعے صارفین پر بجلی کے بلوں کا کتنا بھاری بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ آج عملاً چار سو یونٹ کا بجلی کا بل 30 ہزار روپے سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ تین سو یونٹ تک کا بل بھی 20 ہزار روپے سے کم نہیں آرہا جس میں ایسے ایسے ٹیکس بھی شامل ہوتے ہیں کہ انسان انہیں دیکھ کر ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ اس دیدہ دلیری کو کھلی ڈکیتی کا نام نہ دیا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ کیا دنیا کے کسی ایک ملک کی بھی مثال پیش کی جا سکتی ہے جہاں بجلی کا استعمال بڑھنے پر فی یونٹ بجلی کے ریٹ دوگنا‘ تین گنا بڑھا کر صارفین کو بھجوائے جاتے ہوں۔ یہ فارمولا تو دانستہ طور پر عوام کو زندہ درگور کرنے کا ہے اور پھر نجی پاور کمپنیوں کی من مانیاں دیکھیئے کہ اگر کوئی کمپنی ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہ کر رہی ہو تو بھی اسکے ساتھ طے شدہ معاہدے کی بنیاد پر حکومت اسے سرکاری خزانے سے مطلوبہ واجب الادا رقم ادا کرنے کی پابند ہوگی۔ ایسے معاہدوں کو سرکاری خزانے سے اپنوں کو نوازنے کے سوا اور کیا کہا جائے۔ یہ محض نقب لگا کر نہیں‘ سیدھا سیدھا دروازے کھول کر سرکاری خزانے کی لوٹ مار والا منظر ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ منتخب ایوانوں میں نہ بجٹ پر بحث کے دوران کسی حکومتی یا اپوزیشن رکن کو سرکاری چھتری تلے اس لوٹ مار پر بات کرنے کی توفیق ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی رکن عوام کے ساتھ اس کھلی دھاندلی پر کوئی موشن لانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے کیونکہ ان مراعات یافتہ طبقات بشمول اعلیٰ سرکاری اہلکاران و افسران کو سینکڑوں ہزاروں یونٹ بجلی اور سینکڑوں لٹر پٹرول کی مفت فراہمی کی سہولت دیکر انکے منہ بند کر دیئے گئے ہیں مگر انکی اس عیاشی کا سارا نزلہ تو راندہ درگاہ عوام پر ہی گرتا ہے۔
اس سے آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ بجٹ میں اگر سینیٹ کی منظور کردہ سفارشات بھی شامل کرلی جائیں تو بجلی‘ گیس‘ پانی کے بلوں کے اضافی بوجھ میں دبے عوام کو اس بجٹ سے کیا ریلیف مل پائے گا جبکہ ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاءکے نرخ بھی منافع خور مافیاز نے باہمی ملی بھگت کے تحت انکی پہنچ سے باہر نکال دیئے ہیں۔ ایسے معاملات پر آزاد کشمیر کے باشعور عوام کی تحریک کی بات کی جائے تو حب الوطنی اور ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی فیکٹریاں لگ جائیں گی مگر اسکے سوا عوام کے پاس اور راستہ ہی کون سا بچا ہے۔
بھکّھے کولوں برکی کھوہ کے کہندے او کہ بولے نہ
جس دا جھگّا بَھجّے‘ آخر اوہ تے رولا پاوے گا
آج لوگ بجا طور پر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ بجلی‘ گیس‘ پانی کے بلوں میں عوام کے ساتھ کھلم کھلا لوٹ مار کے ذریعے جو کھربوں روپے جبراً وصول کئے جا رہے ہیں‘ اگر وہ قومی خزانے کا حصہ بن رہے ہیں تو پھر ہمارے طاقت کے سارے سرچشموں کو کشکول اٹھا کر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ناک رگڑنے اور ملکوں ملکوں گھومنے کی مجبوری کیونکر لاحق ہوئی ہے۔ اور ایسے ماحول میں ملک اور عوام کے اچھے مستقبل کیلئے امید کی کوئی کرن کیسے اور کہاں پر نظر آسکتی ہے۔ پھر اس کیلئے کتھارسس کے عمل سے کس نے گزرنا ہے۔ اور اس مارا ماری میں اگر ”ناصحوں“ کو کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو تو عوام بے چارے کیا کریں؟