ٹامک ٹوئیاں

قارئین آپ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں یقین جانیئے آجکل کے دور میں کسی بھی تجزیہ نگار کیلئے غیرجانبدار ہو کر لکھنا اور بولنا جوئے شیئر لانے سے کم نہیں رہا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں ایک غیر جانبدرانہ تجزیے یا تبصرے کیلئے ایک طرف آپکو شخصی تعلقات اور ذاتی خواہشات یا اسکے برعکس ب±غض کی عینک ا±تار کر زمینی حقائق کا جائزہ لینا پڑتا ہے وہیں پر ان دنوں وقت کا یہ جبر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے منصوبہ سازوں نے زمینی حقائق کو اس پیمانہ پر انجینئرڈ اور ڈیزائن کرنا شروع کر دیا ہے کہ اصل نقل، سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا اور یقین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن کر کے رکھ دیا ہے لہٰذا ان حقیقتوں کی موجودگی میں راقم کے نزدیک ان تبصروں اور تجزیوں کی صحت بارے بھی کچھ کہنا کافی مشکل دکھائی دینے لگا ہے جنھیں ہم غیرجانبدارانہ قرار دیتے ہیں اور صاحب دانش لوگوں کی نظر میں ایسے تبصروں اور تجزیوں کی حثیت بھی کافی مشکوک سمجھی جانے لگی ہے اور وہ بھی ا±نھے ٹامک ٹوئیوں سے زیادہ نہیں سمجھتے، شائد اسی لیئے راقم نے بھی یہی معتبر جانا کہ وہ اپنے آج کے کالم کو ٹامک ٹوئیاں کا عنوان دے۔
ایک زمانہ تھا جب س±لجھے ہوئے صحافی خبر دیتے تو وہ ایک لفظ استعمال کرتے تھے “باوثوق ذرائع “ لیکن کچھ عرصہ بعد جب صحافت مقدس پیشہ کے حرم سے نکل کر کاروباری انداز میں بیچ بازار بکنا شروع ہوئی تو یار لوگوں نے یہ باور کروانے کیلئے کہ انکی میل ملاقات اور خبر کے ذرائع گریڈ بیس سے اوپر ہیں انھوں نے ایک لفظ استعمال کرنا شروع کیا “معتبر ذرائع “ جب بات اس سے بھی آگے بڑھی اور دوست لوگوں کو لگا کہ ٹہکا پروگرام کیلئے ا±ونچے ا±ونچے سیاستدانوں کے کیمپوں سے وابستگی کے بغیر یہ سول بیوروکریسی ہاتھ نہیں پکڑاتی تو ا±نھیں زیر کرنے کیلئے ٹرم نکلی “باخبر حلقے” لیکن بات یہاں تک نہ ر±کی سوشل میڈیا کے آغاز کے ساتھ ہی صحافت میں نیا ٹرینڈ چلا اور کنزروٹیو سوچ کے حامل سلجھے صحافی صرف نیوز ڈیسک تک محدود رہ گئے اور قلم کی بجائے مائیک نے جل پریوں کی موجودگی میں چرب زبانی کے رواج کی ایسی داغ بیل پڑی کہ پھر صحافت، صحافت نہ رہی بلکہ یہ ایک جیتے جاگتے سرکس کی شکل اختیار کر گئی اور اسکے کرداروں نے ایسے ایسے تاثر دینا شروع کر دئیے کہ شائد اسٹیبلشمنٹ عدلیہ اور حکومت ا±نھیں کے مشوروں کی مرہون منت ہوتی ہے اور وہی فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
”ایک یونانی کہاوت ہے کہ جب مداری کے ہاتھ کی صفائی تماشائیوں پر کھل جائے، تو پھر مداری کے ہاتھ کا کرتب، کرتب نہیں رہتا بلکہ مداری خود تماشہ بن جاتا ہے“۔ اس کہاوت کی عملی شکل دیکھنی ہو تو آجکل پنڈی سے طوطا فال والے نجومی سیاستدان کی مثال آپکے سامنے ہے جو کئی دہائیوں سے یہی تاثر دیتا تھا کہ گیٹ نمبر چار کی اگر کوئی ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے تو وہ وہی ہے لیکن جب اصلیت دکھانے والے اپنی اصلیت دکھانے پر آئے تو انھوں نے وہ کچھ کر دکھایا کہ موصوف کو چھٹی کا دودھ یاد کرا دیا۔ یہ ایک فرد واحد کی مثال نہیں اس سے ملتا جلتا ایک کردار آجکل اس ملک کی صحافت میں بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ اپنے رنگ بکھرنے میں مصروف ہے اور اس نے جب بھی کوئی پھلجھڑی چھوڑنی ہو تو وہ چڑیا کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان دنوں ان چڑی والے صاحب کے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر دستیاب انجینئرڈ اور ڈیزائنڈ تبصروں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ شہباز حکومت اگلے چند دنوں میں اللہ کو پیاری ہو جائیگی بقول انکی چڑیا کی خبر اسٹیبلشمنٹ میں دراڑ پڑ چکی اور تیسرا جس شخص بارے وہ ہر تجزیہ اور تبصرہ میں ذکر کرنا نہیں بھولتے وہ محسن نقوی ہے۔ جیسا شروع میں عرض کر چکا کسی غیر جانبدارانہ تبصرہ کو دیکھنا ہو تو سب سے پہلے اس میں جس چیز کو سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے وہ تبصرہ یا تجزیہ کرنے کا ذاتی interest یا conflict ہوتا ہے۔ زمینی حقائق کی روشنی میں صاحب تذکرہ اور محسن نقوی کی بطور چیئرمین پی سی بی مخاصمت کس سے ڈھکی چھپی ہے لہٰذا اس سباق محسن نقوی بارے انکے جتنے بھی تبصرے تجزیے اور خبریں ہیں انکا ایک ذی شعور بالکل اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسکے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے۔ جہاں تک رہی انکی اس خبر کی حقیقت کہ اسٹیبلشمنٹ میں دراڑ پڑ چکی تو حالیہ “عزم استحکام “ ایکسرسائز جو شروع ہونے جا رہی وہ انکے ایسے تمام تبصروں اور خبروں کی نفی کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والے چیف آف آرمی سٹاف کیلئے اسکے پہلے چھ مہینے کافی سخت ہوتے ہیں کیونکہ اس نے ان ایام میں اپنی کمانڈ مستحکم کرنی ہوتی ہے اور موجودہ چیف کیلئے بھی یہ عرصہ بہت اہم تھا کہ ففتھ جنریشن وار کے ذریعے انکے ادارے میں بھی ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھانے میں کچھ لوگوں کا کردار تھا اور اس سباق میں شائد نو مئی کے واقعہ کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ان چڑیا والے موصوف کو خبر ہو کہ جس جس جگہ ایسی کوئی باقیات موجود تھیں موجودہ کمان نے اسکا مکمل صفایا کر دیا ہے اور ایسا کوئی خواب اب خواب خرگوش ہی رہے گا۔ دوسری طرف ایسی خبروں کا یہ جواز بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ ایکسرسائز پارک لین والے ہوٹل کی لابیوں میں میاں صاحب سے لئے گئے اس وعدے کی تجدید کیلئے بھی ہو سکتی ہے جو انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے دیا تھا جو شائد اسٹیبلشمنٹ اور شہباز شریف کی وجہ سے وفا نہیں ہو سکا۔باقی دلوں کے بھید اللہ جانتا ہے۔ یہ دعویٰ کہ پی پی پی کی وجہ سے شہباز حکومت کے جانے کا پروگرام تو بجٹ اجلاس میں انکی واپسی نے اسکا پول بھی کھول دیا۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن