دہشت گردی کے خلاف جب بھی کسی ’’آپریشن‘‘ کا اعلان ہوتا ہے تو عوام کی اکثریت کے ذہنوں میں سوات اور بعد ازاں چند ہی برس قبل تک ’’قبائلی‘‘ کہلاتے علاقوں میں ہوئی فوجی کارروائیوں کے دوران ابھرے مناظر یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کی سرکوبی اور خاتمے سے پہلے وہاں کے رہائشیوں کو قافلوں کی صورت اپنے آبائی گھروں سے ’’محفوظ مقامات‘‘ پر نقل مکانی کو مائل کیا گیا تھا۔ اس تناظر میں جب بھی سوات سے ہوئی نقل مکانی کے مناظر یاد آتے ہیں تو گھنٹوں اداس بیٹھا رہتا ہوں۔
بہرحال وسیع پیمانے پر ہوئی نقل مکانی کے بعد دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا۔ جنگی زبان میں مذکورہ ٹھکانوں کی بربادی کے بعد ’’نرم‘‘ ہوئے میدان جنگ میں پھر فوجی پیش قدمی ہوتی۔ محفوظ ٹھکانوں سے محروم ہوئے دہشت گردوں کو زمینی حملوں کے ذریعے مارایا گرفتار کرلیا جاتا۔ بالآخر جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ان کی ’’صفائی‘‘ کا اعلان ہوجاتا۔ لوگ اپنے آبائی گھروں کو لوٹنا شروع ہوجاتے۔ نقل مکانی کے دوران جمع ہوئی تکالیف کے بعد واپس آئے عام شہریوں کو آپریشن کے دوران اپنے گھروں اور دوکانوں کی تباہی مزید دْکھی وپریشان کردیتی۔ حکومت سے اجتماعی طورپر ان کی بحالی کیلئے مناسب تعاون میسر نہ ہونے کی شکایات کا انبار جمع ہونا شروع ہوجاتا۔
’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کے اعلان کے بعد اگر عوام کی اکثریت نے ماضی میں دہشت گردی کے خلاف ہوئے بڑے آپریشنز کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو انہیں دوش دینا سراسر زیادتی ہوگی۔ عوام کے دلوں میں اس حوالے سے جو خدشات ابھرے ان کا تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہ نمائوں نے بھی جارحانہ انداز میں اظہار کیا۔ بدقسمتی سے تاثر یہ بھی ابھرا جیسے ’’ایک بار پھر‘‘ پشتون علاقوں ہی کو ایک اور ’’جنگ‘‘ کا میدان بنانے کی تیاری ہورہی ہے۔مذکورہ تاثر کے تدارک کے لئے پیر کی شام وزیر اعظم ہائوس سے گھبراہٹ میں ایک پریس ریلیز جاری ہوئی ہے۔ اس کے ذریعے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ ماضی میں ہوئی فوجی کارروائیوں سے قطعاََ مختلف ہوگا۔ اس کا بنیادی مقصد امن وامان کے ذمہ دار تمام اداروں کے مابین جامع اور متحرک تعاون کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف خفیہ اداروں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں ہوں گی۔ کسی بھی علاقے کو ’’نوگوایریا‘‘ شمار کرتے ہوئے وہاں مقیم عام شہریوں کو نقل مکانی کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ پیر کی شام وزیر اعظم کے دفتر سے آئی پریس ریلیز پڑھتے ہوئے میں منیر نیازی کے ’’ہمیشہ دیر کردیتاہوں‘‘ والے دْکھ کو یاد کرتا رہا۔ حیرت ہوئی کہ ابلاغ کے جدید ترین ذرائع پر کامل اجارے کے باوجود حکومت حقیقی صورتحال عوام کے روبرو بروقت کیوں نہیں رکھ پائی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے معاونین کی بے پناہ اکثریت 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی اسمبلیوں میں آنے کے بعد سیاسی میدان میں متحرک ہوئی تھی۔ اپنے اقتدار کے دوران شہباز صاحب کی نسل کے سیاستدان حکومتی اقدامات فقط اخبارات کے ذریعے لوگوں کے روبرو لانے کو مجبور تھے۔ اس کے علاوہ ’’ذہن سازی‘‘ کے لئے پی ٹی وی پر کامل انحصار کی عادت بھی لاحق ہوگئی۔ رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی مگر ’’نجی‘‘ ٹی وی چینلوں کا آغاز ہوا۔ ان کی بدولت حکومتی موقف لوگوں کو ہمیشہ بدنیتی پر مشتمل جھوٹ محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ نہایت اعتماد اور مان سے پاکستان میں نجی شعبے کو ’’آزاد‘‘ ٹی وی نیٹ ورک متعارف کروانے کی اجازت فراہم کرنے والے جنرل مشرف کازوال بھی غیر سرکاری ٹی وی چینلوں ہی کی بدولت ہوا۔ عدلیہ آزادی کی تحریک کی 24/7کوریج اس کا سبب ہوئی۔
2008ء کے بعد قائم ہوئی پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی ’’آزاد‘‘ میڈیا نے ’’آزاد‘‘ عدلیہ کی پشت پناہی میں ایک پل کو چین لینے نہیں دیا۔ دریں اثناء ریاست کے دائمی اداروں نے دریافت کرلیا کہ ’’آزاد‘‘ میڈیا کو ہوشیاری سے ہلاشیری دیتے ہوئے سیاسی حکومت کو ان کی ’’اصل اوقات‘‘ میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس کا بھرپور مظاہرہ ہمیں نواز شریف کی تیسری حکومت کے دوران دیکھنے کو ملا۔ ’’آزاد‘‘ ٹی وی چینل اپنے ریگولر پروگرام اور ان کے لئے بک ہوئے اشتہارات روک کر عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد میں ہوئے دھرنوں سے خطاب براہ راست دکھانا شروع ہوجاتے۔
دھرنا ختم ہوا تو پانامہ دستاویزات دھماکے کی صورت پھٹ پڑیں۔ سپریم کورٹ کو ان کا ازخود نوٹس لینے کی فضا بنوائی گئی۔اس کے نتیجے میں نواز شریف وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو تحریک لبیک کے دھرنے شروع ہوگئے۔ معاشرے میں ابتری پھیلانے کے حوالے سے ان دھرنوں کے دور رس اثرات پر توجہ دینے کے بجائے ہم صحافیوں کی اکثریت ’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘ لڑنے میں مصروف ہوگئی۔ میں بدنصیب اس جنگ کے حقیقی مقاصد اگرچہ آج تک سمجھ نہ پایا ہوں۔
’’آزاد‘‘ ٹی وی ’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘میں مصروف ہوگیا تو سوشل میڈیا ’’حق سچ‘‘ کی حقیقی ترجمانی کرتا محسوس ہوا۔ ان دنوں اس میڈیا پر بنیادی طوروہ ’’دلاور‘‘ چھائے ہوئے ہیں جنہیں ہماری ریاست ہی کے چند افراد نے ’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘ کے لئے تیار کیا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں سیکھی ’’چالاکیوں‘‘ کے ذریعے عوام کی ’’ذہن سازی‘‘کی عادی ہوئی شہباز حکومت مگر سمجھ ہی نہیں پارہی کہ 2024ء میں حکومت کو اپنا بیانیہ بیچنے کے لئے کونسے حربے اور ذرائع استعمال کرنا لازمی ہے۔
چند روز قبل چین سے ایک وزیر پاکستان تشریف لائے تھے۔ ان کے ساتھ ہماری تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے وفود کی ملاقات بھی ہوئی۔ سرکاری اور غیر سرکاری لوگوں سے ہوئی ملاقاتوں کے دوران چینی وزیر تواتر سے پاکستان میں سی پیک کے تحت جاری منصوبوں پر ان کے ملک سے آئے سرمایہ کاروں اور ہنرمندوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا تقاضہ کرتے رہے۔ ان کے وطن لوٹنے کے چند ہی لمحوں بعد رات ہونے سے قبل ایک پریس ریلیز جاری کردی گئی۔ اس کے ذریعے ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کااعلان ہوا اور عوام کی اکثریت کو سوات سے 2009ء کے آپریشن کے دوران ہوئی نقل مکانی کے مناظر یاد آنے لگے۔ انگریزی والا ’’(Damage)نقصان‘‘ ہوگیا تو پیر کی رات وضاحتی بیان جاری کردیا گیا ہے۔ کاش اس کی ضرورت درکارنہ ہوتی۔
"پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ"
Jun 26, 2024