ابھی تو اِنٹروَل بھی نہیں ہوا

Jun 26, 2024

عبداللہ طارق سہیل

غزہ کے قتل عام میں اب تک کتنے بچے قتل کئے جا چکے؟۔ جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 17 ہزار ہے۔ لیکن آج کی تازہ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد اس سے زیادہ ہے۔ کیسے؟۔ رپورٹ کے مطابق 17 ہزاربچے لاپتہ ہیں اور کسی کو پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں ہیں۔ ان کا کچھ اتہ پتہ نہیں مل رہا کہ زمین کھا گئی یا آسمان لے گیا۔ کہاں گئے ہوں گے ، مر ہی گئے ہوں گے اور بڑے بموں نے ان کی لاشوں کو دھول مٹی میں بدل دیا ہو گا۔ لیکن حکام اتہ پتہ ملنے تک ان 17 ہزار کو پہلے والے سترہ ہزار میں شامل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ 
گویا 34 ہزار بچے مارے گئے۔ لیکن نہیں، ایک ہزار بچے مصدقہ طور پر اور بھی ہیں جو کئی ہفتوں اور مہینوں سے ملبے تلے دبے ہیں۔ یہ ملبہ ایسا ہے کہ اسے ہٹانے کی ہر کوشش ناکام ہو گئی۔ ان بچوں کی طرف سے مدد کی آوازیں آتی رہیں، اب نہیں آ رہیں۔ گویا یہ بھی مر گئے لیکن چونکہ نام پتے کے ساتھ ان کا اندراج تبھی ہو گا جب لاشے باہر آئیں گے اس لئے ان کو بھی 17 ہزار تصدیق شدہ لاشوں میں شامل نہیں کیا جا رہا۔ گویا مل ملا کر 35 ہزار بچے مارے جا چکے۔ 
یتیم بچوں کی تعداد 25 ہزار ہے۔ ان میں سے بعض کی ماں، بعض کے باپ، بعض کے ماں باپ دونوں اور بعض کے جملہ رشتے دار مارے گئے۔ کل ہی ایک 15 دن کا زندہ سلامت بچہ دکھایا گیا اور بتایا گیا کہ اس کے ماں باپ بہن بھائی چچا ماموں سبھی مارے گئے۔ اس کا کوئی قریبی یا دور کا رشتہ دار نہیں بچا۔
20 ہزار بچے ایسے ہیں جن کے ماں باپ کا پتہ نہیں چل رہا کہ مر گئے یا زندہ ہیں۔ اس لئے ابھی انہیں یتیم کا ’’درجہ‘‘ نہیں دیا جا رہا۔ ایسی ہی ایک لاوارث بچی تین سال کی عمر کی دیکھی گئی جو کھنڈروں میں ایک ہی سمت روتی ہوئی بھاگی جا رہی تھی۔ یہ مسلسل یا اللہ یا اللہ کہے جا رہی تھی۔ کبھی چیخ کر یا اللہ کہتی ، کبھی رو کر، کبھی سسکی بھر کر۔ کیمرے والے نے دور تک اس کا ساتھ دیا۔ پھر کیا ہوا، یہ ویڈیو میں نہیں دکھایا گیا۔ یقینا کسی کی پناہ میں آ گئی ہو گی۔ ویڈیو تین چار دن پرانی ہے۔ پتہ نہیں ، کسی تازہ بمباری میں ماری گئی یا بچ گئی۔ 
ہزاروں بچے راشن لینے کیلئے کھڑے اور سب کے سب بری طرح رو رہے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی اتنے زیادہ بچوں کو اس طرح ایک ساتھ بلک بلک کر روتے نہیں دیکھا۔ راشن تھوڑا ہے اور ہر بچہ سمجھتا ہے، اس کی باری نہیں آئے گی، اسے راشن نہیں ملے گا، اس لئے ہر بچہ رو رہا ہے اور یہ محض ایک جگہ کا منظر نہیں ہے۔ 
ایک اور ویڈیو دیکھی، خوبصورتی سے سجائے گئے ایک کمرے میں بہت عمدہ پلنگ پر ایک بہت خوبصورت، صحت مند، سات آٹھ مہینے یا شاید سال بھر کا بچہ خوشی سے قلقاریاں مار رہا ہے، اس کا سات آٹھ سال کا بڑا بھائی بیٹھا ہے، اسے پیار کر رہا ہے اور چھیڑ رہا ہے۔ دونوں بہت خوش ہیں۔ 
اسی ویڈیو کے دوسرے حصے میں دوبارہ ان دونوں بھائیوں کو دکھایا گیا ہے۔ بڑا بھائی مردہ حالت میں پڑا ہے، سات آٹھ مہینے کی عمر والا چھوٹا بچہ ہسپتال کے بستر پر پڑا چیخ رہا ہے ، شدید درد سے وہ دہرا تہرا ہو رہا ہے ، اس کی کمر مسلسل اوپر اٹھی ہوئی ہے اور منہ سے رونے چیخنے کی آوازیں ایسی ہیں کہ دل گردے والے بھی نہ سن پائیں۔ 
ہر تھوڑی دیر بعد موبائل کھول کر ٹویٹر دیکھتا ہوں اور ہر بار سب سے پہلی پوسٹ اس طرح کی ہے کہ اسرائیل نے ابھی ابھی فلاں جگہ بمباری کی ہے، رائٹ نا?۔ اتنے مارے گئے۔ اسرائیل کا رائٹ نا? now Right  کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ 
ٹویٹر پر اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز کی بھرمار ہے جن میں اسرائیلی ربی RABBI کوھانیم اور کاھن توریت ہاتھ میں لئے ’’وعظ‘‘ کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہ دیکھ لکھا ہے، فلسطینی (فلسطینی کا پرانا تلفظ) بچوں کو قتل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ فرض ہے۔ اس لئے ہمیں ایک ایک فلسطینی بچے کو مارنا ہو گا (تحریف شدہ آیات) گلوکار اور ڈانسر بھی ، لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی، خصوصی طور پر بنائے گئے گانے گا رہے اور ناچ رہے ہیں اور گلے پر ہاتھ کو چھری کے انداز میں پھیر پھیر کر بتا رہے ہیں کہ ہر فلسطینی مار دیا جائے گا، غزہ تھا، اب نہیں ہے۔ کوئی غزہ ہے اور نہ کوئی رفاہ ، سب اسرائیل ہے۔ 
اسرائیل اب ان کا نہیں، اعتراف کر رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ وہ غزہ میں کسی کو نہیں چھوڑے گا اور امریکی صدر بائیڈن اب بھی یہی کہے جا رہا ہے کہ اس بات کی کوئی گواہی ملی ہے نہ علامت کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ ایسی ویڈیوز بھی عام ہیں جن میں کوئی بوڑھا، کوئی کمر جھکی بڑھیا چلّا چلّا کر ، کیمرے کے سامنے پوچھ رہی ہے کہ کہاں گئے مسلمان، امت کہاں ہے، عرب کہاں ہیں۔ کسی کو پتہ ہو تو بتائے کہ کہاں ہیں۔ 
بائیکاٹ کے باضابطہ اعلان کے باوجود مال سے بھرے لدے ترکی کے جہازوں کی اسرائیلی بندرگاہوں پر قطار اندر قطار آمد جاری ہے۔ دو عرب ملک جن کے پاس شاید امریکہ سے بھی زیادہ پیسہ ہے، اسرائیل کی مسلسل مالی مدد کر رہے ہیں، امریکہ ہتھیار بھی دے رہا ہے اور پیسے بھی۔ مصر بار بار اعلان کر رہا ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں، ہم کسی فلسطینی کو سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مصر کی تفریح گاہوں ہوٹلوں اور ریسٹورانٹس پر یہودی سیاحوں کا تانتا بندھا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی سب سے بڑی تفریح گاہ بنانے اور امارات سوڈان میں عوام کے جھاڑ جھنکار کی صفائی اپنی ’’پراکیسز‘‘ کے ذریعے کئے جا رہا ہے، لبنان سے حزب اللہ والے مسلسل راکٹ باری کر کے شمالی اسرائیل کی جھاڑیوں، درختوں اور کھمبوں کو نشانہ بنا رہے ہیں دنیا ایک ’’ھارر فلم‘‘ کو لائیو دیکھنے کا مزہ لے رہی ہے اور فلم کا ابھی تو انٹرول بھی نہیں ہوا ہے۔

مزیدخبریں