عیشہ پیرزادہ
کیا ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت ایسے خطوط پر کر رہے ہیں جن پر چل کر یہ معاشرے کے ذمہ دار اور فائدہ مند فرد ثابت ہوں گے؟ بچوں کو کیا ڈائریکشن دینی ہے اس کی تمام ڈوریں والدین کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارا مستقبل روشن بنائیں تو سب سے پہلے اپنی تربیت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
دن میں چند لمحات صرف یہ سوچنے میں گزاریں کہ آج آپ نے بچوں کی کیا تربیت کی؟ یا صرف ان کی خوراک، پڑھائی اور آرام پر توجہ رہی؟ تعلیم مخصوص معلومات میں اضافہ کر سکتی ہے،لیکن اخلاقیات سیکھانا والدین اور اساتذہ کا کام ہے۔ بچے کی حرکات و سکنات پر سب سے زیادہ نظر والدین کی ہوتی ہے۔ بچے کے بدلتے انداز و بیاں کو والدین ہی پہچان سکتے ہیں۔ محاورہ" شیر کی نگاہ سے دیکھنے" کو ہم سخت رویہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اگر شیر کی نگاہ پر غور کریں تو اس کا مطلب ہے کہ جس طرح شیر اپنے شکار پر حملہ کرنے سے پہلے شکار کی حرکات پر گہری نظر رکھتا ہے بالکل اسی طرح والدین بھی بچوں کی سرگرمیوں،لہجوں، افکار و خیالات پر نظر رکھیں۔ آج کل موبائل بچوں کے ہاتھ میں تھما کر والدین اپنے اپنے گھریلو اور دفتری امور میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ بچہ موبائل پر کیا دیکھ رہا ہے اس بات کی کسے پرواہ؟
یعنی ہماری موجودہ نسل کی تربیت موبائل فون کر رہے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق زیادہ وقت موبائل کا استعمال کرنے سے بچے آس پاس کے لوگوں میں کم گھلتے ملتے ہیں، جس سے ان کو رویوں کا احساس نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ سے وہ مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے معاشرتی رویوں میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر سمجھا جائے تو یہ اس بات کی جانب خطرناک اشارہ ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو ایسے نوجوان دینے والے ہیں جو مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوں گے نیز ان میں اپنے اردگرد موجود لوگوں سے متعلق احساس کم پایا جائے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوگا جیسا آج ہم مغربی معاشرے میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ پھر یہی والدین اولڈ ہوم یا اپنے گھر میں تنہا زندگی کے آخری ایام گزاریں گے اور یہ کلچر اس وقت اتنا عام ہوگا کہ بالکل معمولی سی بات لگے گی۔ مشرقی معاشرہ جس میں بڑوں کا احترام ،دوسروں کا احساس، مل بانٹ کے کھانا،والدین کی خدمت ،عورت کی عزت ماضی میں ہی رہ جائے گا۔ سوچا جائے تو ہم اپنے ہاتھوں سے ایسے معاشرے کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ہمارے بچے جنھیں مادیت پسندی کی جانب ہم دھکیل رہے ہیں وہ کل اس معاشرے کو مزید بگاڑ دیں گے۔ یہ درست نہیں کہ موجودہ معاشرتی عوامل درست ہیں،اسے بہتر کی جانب گامزن کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مستقبل کو ایسے جوان دیں جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں، اخلاقیات سے معاشرے کو سنہرا کر دیں تو ہمیں روزانہ کی بنیاد پر بچوں کی تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔صرف انگلش میڈیم سکول میں پڑھانے اور اعلی گریڈز کا ہدف پورا ہونے کو مقصد حیات نہ جانے۔اپنے بچے پر محنت کریں۔ نوٹ کریں کہ جب وہ دوسرے بچوں میں موجود ہو تو اس میں اور دوسرے بچوں میں کیا فرق ہے؟ فرق اگر مثبت ہوتو سمجھیں آپ کی سمت درست ہے۔ البتہ اگر آپ کو بچہ تمیز اور لحاظ کے دائرے سے ذرا سا بھی باہر نکلتا محسوس ہو تو اس پر اپنی انویسٹمنٹ دگنی کر دیں۔بچوں کو مختلف ہلکی پھلکی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔بچہ آپ کا وقت اور توجہ پسند کرے گا اور اس میں سیکھنے کی صلاحیت بڑھے گی اور موبائل کی عادت کم ہوگی۔ اپنے وقت کا کچھ حصہ بچوں کے لیے متعین کر دیں۔ اس سے گفتگو کریں۔ یوں آہستہ آہستہ وہ آپ سے اپنی باتیں شیئر کرے گا۔ دوستی کا رشتہ پیدا کریں۔ تاکہ جب وہ بڑا ہو تو آپ سے اپنی کوئی بات چھپا نہ سکے۔ جب والدین اور بچوں کے درمیان دوستی کا رشتہ مضبوط ہو جاتا ہے تب بچے والدین کی نصیحت زیادہ توجہ اور دلچسپی سے سنتے اور مانتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ والدین جو ہر وقت ڈانٹ کی فضا قائم رکھتے ہیں ان کی نصیحت بچے بددلی سے سنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔